:سوال
تنگ وقت میں نماز ادا کرنے والے کو اللہ تعالی ویل فرماتا ہے اور آپ خود تنگ وقت ادا فرماتے ہیں اس کی تفصیل بیان فرمائیے گا؟
:جواب
تنگ وقت نماز ادا کرنے پر قرآن عظیم میں ویل کہیں نہ فرمایا
ساھون کے لئے ویل آیا ہے جو وقت کھو کر نماز پڑھتے ہیں حدیث میں اس آیت کی یہی تفسیر فرمائی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ، فرماتے ہیں
سالت النبي صلى الله تعالى عليه وسلم عن قول الله تعالى الذين هم عن صلوتهم ساهون، قال هم الذين يؤخرون الصلاة عن وقتها
میں نے حضور اقدس صلی اللہ تعلی علیہ وسلم سے پوچھا وہ کون لوگ ہیں جنہیں اللہ عزوجل قرآن عظیم میں فرماتا ہے “خرابی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں فرمایا وہ لوگ جو نماز وقت گزار کر پڑھیں ۔
مزید پڑھیں:جمع حقیقی یعنی ایک وقت میں دو نمازوں کو جمع کرنا کیسا ہے؟
(امام اہلسنت رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ) فقیر کے یہاں حمد اللہ نماز تنگ وقت نہیں ہوتی بلکہ مطابق مذہب حنفی ہوتی ہے عوام بیچارے اپنی نا واقفی سے غلط سمجھتے ہیں، مذہب حنفی میں سوا مغرب اور جاڑوں کی ظہر کے سب نمازوں میں تاخیر افضل ہےاس حد تک کہ وقت کراہت نہ آنے پائے اور وہ عصر میں اُس وقت آتا ہے جب قرص آفتاب پر بے تکلف نگاہ جمنے لگےاورتجربے سے ثابت کہ یہ بیس دن رہے ( جب سورج ڈوبنے میں بیں منٹ رہ جاتے ہیں تب ) ہوتا ہے اس سے پہلے پہلے جونماز عصر اُس کے وقت کا نصف اول گزار کر نصف آخر میں ہو وہ وقت مستحب ہے مثلاً آج کل تقریباً سات بجے غروب ہے اورقریب پانچ کے عصر کا وقت ہو جاتا ہے تو وقت مستحب یہ ہے کہ پانچ بج کر پچاس منٹ سے چھ بج کر چالیس منٹ تک نماز عصرپڑھیں اور عشاء میں وقت کراہت آدھی رات کے بعد ہے، یہ حالتیں بحمد اللہ تعالی میرے یہاں نہیں مجھے پابندی امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے احکام کی ہے نہ جاہلوں کے خیالات و اوہام کی۔
حاکم و دار قطنی نے زیاد بن عبداللہ نخعی سے روایت کی ، فرماتے ہیں
کنا جلوسا مع على رضى الله تعالى عنه فی المسجد الاعظم فجاء المؤذن فقال: يا امير المؤمنين افقال: اجلس فجلس ثم عاد فقال له ذلك فقال رضى الله تعالى عنه هذا الكلب يعلمنا السنة فقام على فصلى بنا العصر، ثم انصرفنا، فرجعنا الى المكان الذي كنافيه جلوساء فجثونا للركب لنزول الشمس للغروب نترا اها
ہم کوفہ کی جامع مسجد میں مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہ الکریم کے پاس بیٹھے تھے، مؤون آیا اور عرض کی یا امیر المومنین (یعنی نماز عصر کو تشریف لے چلیے امیر المومنین نے فرمایا بیٹھ، وہ بیٹھ گیا، پھر دوبارہ حاضر ہوا اور وہی عرض کی۔ مولی علی کرم اللہ تعالی وجہ نے فرمایا یہ کتا ہمیں سنت سکھاتا ہے ، بعدہ مولا علی کھڑے ہوئے اور ہمیں عصر پڑھائی پھر ہم نماز کا سلام پھیر کر مسجد میں جہاں بیٹھے تھے وہیں آئے تو گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر سورج کو دیکھنے لگے اس لئے کہ وہ ڈوبنے کو اتر گیا تھا
اگر یہ مولیٰ علی کا صرف اپنا فعل ہوتا جب بھی حجت شرعی تھا نہ کہ وہ اسے صراحۂ سنت بتا ر ہے اور موذن پر جو جلدی کا تقاضا کرتا تھا ایسا شدید غضب فرما رہے ہیں ،
اسی کی مثل امیر المومنین کرم اللہ تعالٰی وجہ سے نماز صبح میں مروی امام طحاوی بطریق داؤد بن یزید الاودی عن ابیہ روایت فرماتے ہیں،
مزید پڑھیں:وقت ظہر کا عصر کا مغرب وعشاء فجر کا کب تک رہتا ہے؟ خصوصاً مغرب کا وقت کب تک رہتا ہے؟
قال كان علی ابن ابی طالب رضی الله تعالى عنه يصلى بنا الفجر ونحن نترااى الشمس مخافة ان تكون قد طلعت
مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہ انہیں نماز صبح پڑھایا کرتے اور ہم سورج کی طرف دیکھا کرتے تھے اس خوف سے کہ کہیں طلوع نہ کر آیا ہو
مناقب سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالی للامام حافظ الدین الکردری میں ہے
ذكر الامــام الــديـلـمـي عن زهير ابن کیسان قال صليت مع الرصافي العصر ثم انطلقت مسجد الامام فاخر العصر حتى حقت قوات الوقت ثم
انطلقت الى مسجد سفين فاذا هو لم يصل العصر فقلت رحم الله ابا حنيفة ما احرها مثل اخر سفین
یعنی امام دیلمی نے زہیر بن کیسان سے روایت کی کہ میں رصافی کے ساتھ نماز عصر پڑھ کر مسجد امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ میں گیا امام نے عصرمیں اتنی تاخیر فرمائی کہ مجھے خوف ہوا کہ وقت جاتا رہے گا پھر میں مسجد امام سفیان ثوری بنی الہ تعالی عنہ کی طرف گیا تو کیا دیکھوں کہ انہوں نے ابھی نماز پڑھی بھی نہیں ، میں نے کہا اللہ ابوحنیفہ پر رحمت فرمائے انہوں نے تو اتنی تاخیر کی بھی نہیں جتنی سفین نے ۔
فقیر (اعلی حضرت رحمت اللہ علیہ) کے یہاں سوا گھنٹہ دن رہے اذان عصر ہوتی ہے اور گھنٹہ بھر دن رہے نماز ہوتی ہے اور پون گھنٹہ دن رہے سے پہلے ہو چکتی ہے
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 148