حدیث کے مراتب اور ان کے احکام
سوال
حدیث کے مراتب اور ان کے احکام ارشاد فرما دیجئے ؟
جواب
مرتبہ صحیح کے بعد، صحیح لغیرہ، پھر حسن لذاتہ، پھر حسن لغیرہ ،پھر ضعیف بضعف قریب اس حد تک کہ صلاحیت اعتبار باقی رکھے جیسے اختلاط راوی یا سوء حفظ یا تدلیس وغیر ہا اول کے تین بلکہ چاروں قسم کو ایک مذہب پر اسم ثبوت متناول ( شامل ) ہے اور وہ سب محتج بہا ہیں ( یعنی ان سے دلیل پکڑی جاسکتی ہے ) اور آخر کی قسم صالح یہ متابعات و شواہد میں کام آتی ہے اور جابر ( نقصان پورا کرنے والے) سے قوت پا کر حسن لغیرہ بلکہ صحیح لغیرہ ہو جاتی ہے۔ اس وقت وہ صلاحیت احتجاج وقبول فی الاحکام کا زیور گرانبہا (قیمتی زیور) پہنتی ہے، ورنہ در بارہ فضائل ( فضائل میں ) تو آپ ہی مقبول وتنہا کافی ہے۔
پھر درجہ ششم میں ضعف قوی در ہن (شدید کمزوری ) ہے جیسے راوی کے فسق وغیرہ قوادح قو یہ کے سبب متروک ہونا بشر طیکہ ہنوز سرحد کذب سے جدائی ہو، یہ حدیث احکام میں احتجاج در کنار اعتبار کے بھی لائق نہیں، ہاں فضائل میں مذہب راجح پر مطلقا اور بعض کے طور پر بعد انجبار بتعدد مخارج و تنوع طرق (کثرت طرق سے نقصان پورا ہونے کی صورت میں ) منصب قبول و عمل پاتی ہے کما سنبینہ ان شاء اللہ تعالی ( ان شاء اللہ تعالی عنقریب ان کی تفصیلات آ رہی ہیں )
پھر درجہ ہفتم میں مرتبہ مطروح ہے جس کا مدار وضاع کذاب یا مہتمم بالکذب پر ہو، یہ بدترین اقسام ہیں بلکہ بعض محاورات کے رُو سے مطلقا اور ایک اصطلاح پر اس کی نوع اشد یعنی جس کا مدار کذب پر ہو عین موضوع، با نظر تدقیق میں یوں کہے کہ ان اطلاقات پر داخل موضوع حکمی ہے۔
ان سب کے بعد درجہ موضوع کا ہے، یہ بالا جماع نہ قابل انجبار ( ایسی نہیں ہے کہ اس کا نقصان پورا ہو سکے ، نہ فضائل وغیر ہاکسی باب میں لائق اعتبار، بلکہ اسے حدیث کہناہی توسع و تجوز (مجاز) ہے ، حقیقتہ حدیث نہیں محض مجعول و افترا ہے، والحیاز بالله تبارک و تعالی و سیرد عليك تفاصيل حل ذلك ان شاء الله العلى الاعلی (اس کی روشن تفاصیل ان شاء اللہ تعالی آپ کے لئے بیان کی جائیں گی )
خیر بات دور پڑتی ہے کہنا اس قدر ہے کہ جب صحیح اور موضوع کے درمیان اتنی منزلیں ہیں تو انکار صحت سے اثبات وضع
ماننا زمین وآسمان کے قتلابے ملانا ہے بلکہ نفی صحت اگر بمعنی نفی ثبوت ہی لیجئے یعنی اس فرقہ محدثین کی اصطلاح پر جس کے نزدیک ثبوت صحت وحسن دونوں کو شامل تاہم اس کا حاصل اس قدر ہوگا کہ صحیح وحسن نہیں نہ کہ باطل موضوع ہے کہ حسن موضوع کے بیچ میں بھی دور دراز میدان پڑے ہیں۔
مزید پڑھیں:یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اسکا مطلب کیا ہے؟
READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 448

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top