زکوۃ کا پیسہ منافع کی غرض سے تجارت میں لگا سکتے کہ نہیں؟
:سوال
اگر چند اشخاص دولتمند کئی ہزار روپے زکوۃ کا جمع کر کے چند معتبر لوگوں کے سپرد اس غرض سے کریں کہ وہ روپیہ حقداران زکوہ حسب ضرورت ان کے دیا جائے ۔ وہ لوگ جن کی سپردگی میں مال زکوۃ دیا گیا ہے وہ اس مال کو بڑھانے کی غرض سے تجارت میں لگا سکتے ہیں یا نہیں؟
:جواب
ان لوگوں پر فرض ہے کہ وہ روپیہ مستحقین زکوۃ پر تقسیم کر دیں اُس سے تجارت کرنا ان کو حرام ہے جب تک اذِن جملہ مالکان ( تمام مالکوں کی اجازت نہ ہو، اور مالکوں کو بھی جائز نہیں کہ اگر ان پر زکوۃ کا پورا سال ہو چکا ہوتو زکوۃ روکیں اور تجارت کے منافع حاصل ہونے پر ملتوی کریں، سال تمام پر زکوہ فورا فورا ادا کرنا واجب ہے، ہاں جس نے پیشگی دیا ہوا بھی سال تمام اس پر نہ آیا ہو وہ سال تمام آنے تک ٹھہر سکتا ہے، پھر اگر یوں کرے کہ مثلا ہزار روپے سال آئندہ کی زکوۃ کی نیت سے تجارت میں لگائے کہ ان سے جو نفع ہو وہ بھی مع ان ہزار کے فقراء کو دے گا تو یہ نہایت محبوب عمل ہے۔
مگر یہ ضرور ہے کہ اگر تجارت میں نقصان ہو تو نقصان فقراء پر نہیں ڈال سکتا، اُن کو سال تمام پر پورے ہزار دینے لازم ہوں گے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 159

مزید پڑھیں:صدقہ کے لیے وکیل بنایا تو کیا وہ اسے خود استعمال کر سکتا ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔
READ MORE  پیشہ ور گدا گروں(بھیک مانگنے والے) کو زکوۃ دینا کیسا ہے؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top