:سوال
کیا اس بارے علماء کرام کے بھی ارشادات ہیں؟
:جواب
لا جرم علمائے کرام نے تصریحیں فرمائی کہ دربارہ احکام بھی ضعیف حدیث مقبول ہوگی جبکہ جان و احتیاط میں ہو
امام نووی نے اذکار پھر شمس مطاوی نے فتح المغیث پھر شباب خفاجی نے نسیم الریاض میں فرمایا
” اما الاحكام كالحلال والحرام والبيع والنكاح والاطلاق وغير ذلك فلا يعمل فيها الا بالحديث الصحيح او الحسن الاان ايكون في احتياط في شيء من ذلك كما اذا ورد حديث ضعيف بكراهة بعض البيوع أو الا نكحة فان المستحب ان يتنزه عنه ولكن لا يجب “
یعنی محدثین وفقہا و غیر ہم علماء فرماتے ہیں کہ حلال و حرام بیع نکاح طلاق وغیرہ احکام کے بارہ میں صرف حدیث صحیح یا حسن ہی پر عمل کیا جائیگا مگر یہ کہ ان مواقع میں کسی احتیاطی بات میں ہو جیسے کسی بیع یا نکاح کی کراہت میں حدیث ضعیف آئے تو مستحب ہے کہ اس سے بچیں ہاں واجب نہیں۔
امام جلیل جلال سیوطی تدریب میں فرماتے ہیں
” و يعمل بالضعیف ايضا في الاحكام اذا کان فيهاحتیاط ”
حدیث ضعیف پر احکام میں بھی عمل کیا جائیگا جبکہ اس میں احتیاط ہو۔
ایک حدیث ضعیف میں بدھ کے دن پچھنے لگانے سے ممانعت آئی ہے کہ
من احتجم يوم الاربعاء ويوم السبت فاصابه برص فلا يلو من الانفسه “
جوبدھ یا ہفتہ کے روز پچھنے لگائے پھر اس کے بدن پر سپید ( سفید ) داغ ہو جائے تو اپنے ہی آپ کو ملامت کرے۔
مزید پڑھیں:کیا حدیث ضعیف پر عمل کے لیے ضروری ہے کہ کوئی صحیح حدیث بھی موجود ہو؟
امام سیوطی فرماتے ہیں
” سمعت ابي يقول سمعت ابا عمرو محمد بن جعفر بن مطر النيسابوري قال قلت يوما ان هذا الحديث ليس بصحيح فاقتصدت يوم الاربعاء فاصابني البرص فرأيت رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم في النوم فشكوت اليه حالى فقال اياك والاستهانة بحديثي فقلت تبت يا رسول الله صلى اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فانتهبت وقدعا فاني الله تعالى و ذهب ذلك على “
ایک صاحب محمد بن جعفر بن مطر نیشا پوری کو قصد کی ضرورت تھی بدھ کا دن تھا خیال کیا کہ حدیث مذکور تو صحیح نہیں قصد لے لی فورا برس ہوگئی ، خواب میں حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے حضور سے فریاد کی حضور پرنور صل اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: امساك والاستهانة بحديثي ( خبر دار میری حدیث کو ہلکا نہ سمجھنا ) انہوں نے توبہ کی آنکھ کھلی تو اچھے تھے۔
امام ابن عساکر روایت فرماتے ہیں ابو معین حسین بن حسن طبری نے پچھنے لگانے چاہیے، ہفتہ کا دن تھا غلام سے کہا حجام کو بلالاؤ ، جب وہ چلا حدیث یاد آئی پھر کچھ سوچ کر کہا حدیث میں تو ضعیف ہے، غرض لگائے ، برص ہوگئی خواب میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے فریاد کی، فرمایا: ایاك والاستهانة بحدیثی ( دیکھ میری حدیث کا معاملہ آسان نہ جاننا ) ۔ اُنہوں نے منت مانی اللہ تعالی اس مرض سے نجات دے تو اب کبھی حدیث کے معاملہ میں سہل انگاری نہ کروں گا صحیح ہو یا ضعیف اللہ عزوجل نے شفا بخشی
یوں ہی ایک حدیث ضعیف میں بدھ کے دن ناخن قطروانے کو ایا کہ مورث برس کیوں (سفید داغ کا سبب) ہوتا ہے بعض علما نے کتروائے، کسی نے بر بنائے حدیث منع کیا، فرمایا حدیث صحیح نہیں، فورا مبتلا ہو گئے، خواب میں زیارت جمال بے مثال حضور پر نور محبوب ذی الجلال صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے مشرف ہوئے ، شافی کافی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے حضور اپنے حال کی شکایت عرض کی، جضور والا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا تم نے نہ سنا تھا کہ ہم نے اس سے نفی فرمائی ہے؟ عرض کی حدیث میرے نزدیک صحت کو نہ پہنچی تھی، ارشاد ہوا: تمہیں اتنا کافی تھا کہ حدیث ہمارے نام پاک سے تمہارے کان تک پہنچی، یہ فرما کر حضور مبر ءالا کمہ والا برس ماہی الموت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنا دست اقدس کہ پناہ دو جہان ودستگیر بیکساں ہے ان کے بدن پر لگا دیا فورا اچھے ہو گئے اور اسی وقت توبہ کی کہ اب کبھی حدیث سن کر مخالفت نہ کرونگا
سبحان اللہ جب محل احتیاط میں احادیث ضعیفہ خود احکام میں مقبول و معمول تو فضائل تو فضائل ہیں اور ان فوائد نفسیہ جلیلہ مفیدہ سے بحمد اللہ تعالی عقل سلیم کے نزدیک وہ مطلب بھی روشن ہو گیا کہ ضعیف حدیث اس کی غلطی واقعی کو مستلزم نہیں دیکھو یہ حدیثیں بلحاظ سندھ کیسی ضعاف تھیں اور واقع میں ان کی وہ شان کہ مخالفت کرتے ہیں فورا تصدیقیں ظاہر ہوئیں کاش منکر ان فضائل کو بھی اللہ عزوجل تعظیم حدیث مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی توفیق بخشے اور اسے ہلکا سمجھنے سے نجات دے آ مین۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 494 تا 501