:سوال
خطبہ جمعہ و عیدین عربی عوام نہیں سمجھ سکتے ہیں کیا ان کے لحاظ سے اردو زبان ہی میں پڑھا جا سکتا ہے؟
: جواب
زمان برکت نشان حضور پرنورسید الانس والجان عليه وعلى اله افضل الصلوۃ والسلام سے عہد صحابہ کرام و تابعین عظام و ائمه اعلام تک تمام قرون و طبقات میں جمعہ و عیدین کے خطبے ہمیشہ خالص زبان عربی میں مذکور و ماثور اور بانکہ صحابہ و من بعد ہم من ائمہ الکرام کے زمانوں میں ہزار ہا بلاد حجم فتح ہوئے ہزار ہا جوامع بنیں، ہزار ہا منبر نصب ہوئے، عامہ حاضرین اہل عجم ہوئے ، اور ان حضرات میں بہت وہ تھے کہ مفتوحین کی زبان جانتے اس میں ان سے کلام فرماتے یا انیہمہ بھی مروی نہ ہوا کہ خطبہ غیر عربی زبان میں فرمایا یا دونوں زبانوں کا ملایا ہو كما ذكره الشاه ولى الله الدهلوى في شرح الموطا ( جیسا کہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے شرح موطا میں ذکر کیا ہے ) سنت متوارثہ کا خلاف نا پسند ہے ۔۔۔ نہ کہ ایسی سنت جہاں با وصف تحقق حاجت، جانب خلاف رخ نہ فرمایا ہو کہ اب تو اس کا خلاف ضرور مگر وہ وا ساءت ہوگا۔
مزید پڑھیں:جیل میں نماز جمعہ ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
اقول
وتحقيقه ان التذكير بالعجمية كان المقتضى له بعينه موجودا و المانع مفقودا ثم لم يفعلوه فكان ذلك كفا منهم لا تركا والكف فعل والفعل يجرى فيه التوارث بخلاف الترك اذا لا معنى لتوارثه ولا مساغ للتأسى فيه لانه غير مفعول ولا مقدور كما نص عليه الاكابرا لصدور قال في الاشباه والنظائر التروك لا يتقرب بها الا اذاصار الترك كفا وهو فعل وهو المكلف به في النهى لا الترك بمعنى العدم لانه ليس داخلا تحت القدرة للعبد كما في التحرير – اھ أي تحرير الاصول للامام المحقق حيث اطلق رحمه الله تعالى اتقن هذا فانه من اجل المهمات
ترجمه: اس کی تفصیل یہ ہے کہ عجمی زبان میں وعظ و نصیحت کا تقاضا بعینہ موجود تھا اور مانع بھی کوئی نہیں تھا پھر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو یہ ان کا رکنا ہے ترک نہیں اور رکنا فعل ہے اور فعل میں توارث جاری ہوتا ہے بخلاف ترک کے، کیونکہ اس کے نقل ہونے کا معنی نہیں اور نہ ہی اس میں اقتداء جائز ہے کیونکہ وہ معمول سے نہیں اور نہ ہی قدرت میں ، جیسے کہ اس پر ہمارے اسلاف اکابر نے تصریح کی ہے، الاشباہ والنظائر میں ہے کہ تروک کے ساتھ تقریب نہیں ہو سکتا مگر اس صورت میں جب ترک کف کی صورت میں ہو اور وہ فعل ہوگا اور نہی میں یہی مکلف بہ ہے نہ کہ ترک بمعنی عدم کیونکہ معدوم قدرت عبد کے تحت نہیں ہوتا جیسا کہ تحریر میں ہے اھ۔ اس سے مراد تحریر الاصول للا مام المحقق المطلق نے ذکر کیا ہے اسے اچھی طرح یاد کرلو کیونکہ یہ نہایت اہم معاملہ میں سے ہے۔
مزید پڑھیں:دو خطبوں کے درمیان دعا مانگنے کا کیا حکم ہے؟
اذان ضرور بلانے اور ان لوگوں کو اطلاع وقت دینے کے لئے ہے مگر غیر عربی میں ہو تو ہرگز اذان ہی نہ ہو گی اگر چہ مقصود اعلام حاصل ہو جائے کہ اذان صرف سنت تھی جب فی نفسہ بر خلاف سنت ہوئی راسا فوت ہوگئی۔ خطبہ ضرور وعظ و تذکیر کے لئے ہے جیسے نماز کہ ذکر کے لئے ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اقم الصلوة لذكرى )
ترجمہ : میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ اور خود قرآن عظیم کہ اس کا تو نام ہی ذکر حکیم ہے اور اس کے نہ سمجھنے پرسخت انکار فرماتا ہے
افلا يتدبرون القرآن ام على قلوب اقفالها )
ترجمہ: کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں۔
پھر جس کی سمجھ میں عربی نہ آئے نہ اس کے لئے نماز و قرآن اردو یا بنگلہ یا انگریزی کردئے جائیں گے نہ خطبہ واذان، یہ اس کا اپنا قصور ہے اس کا دین عربی، نبی عربی، کتاب عربی ، پھر عربی اتنی بھی نہ سیکھی کہ اپنا دین سمجھ سکتا، انگریزی کی حالت؎ دیکھئے اس پر کیسے اندھے باولے ہو کر گرتے ہیں کہ دو پیسے کمانے کی امید ہے اور عربی جس میں دین ہے ایمان ہے اس سے کچھ غرض نہیں اللہ تعالی توفیق دے وہدایت بخشے ، امین۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 399