:سوال
حافظ کہ ایک بارختم کر چکا اب دوسری تاریخوں میں دوسری جگہ سنانا چاہتا ہے جہاں ابھی لوگوں نے قرآن عظیم نہیں سن تنا ہے، کیا سنا سکتا ہے؟ زید منع کرتا ہے اور دلیل میں کہتا ہے کہ وہ اب نقل سناتا ہے اور مقتدی واجب سننا چاہتے ہیں۔
:جواب
حافظ کہ ایک بارختم کر چکا اب دوسری تاریخوں میں دوسری جگہ سنانا چاہتا ہے جہاں ابھی لوگوں نے قرآن عظیم نہیں سنا ہے تو مذہب صحیح و معتمد پر اس کے عدم جواز کی اصلا کوئی وجہ نہیں نہ اس قرآن سننے کا ثواب نہ ہونے کے کوئی معنی، ظاہر ہے کہ ان راتوں میں وہ بھی تراویح ہی پڑھے گا نہ کہ نفل محض ، تو ضرور تراویح کا امام ہو سکتا ہے اور جب امام تراویح ہو سکے گا تو دوبارہ قرآن عظیم پڑھنے سے کیونکر ممنوع ہو سکتا ہے، اور جب اس سے منع نہیں تو بلا شبہ جو کچھ قرآن عظیم اس میں پڑھے گاوہ تراویح صحیحہ مسنونہ ہی میں ہوگا، پھر ثواب نہ ملنا چہ معنی اور اس کی یہ تعلیل کہ وہ اب نقل سناتا ہے اور مقتدی واجب سکتا چاہتے ہیں اس سے بھی زیادہ فاسد و علیل ۔ تراویح میں پہلا ختم بھی واجب نہیں صرف سنت ہی ہے اور دوبارہ ختم کرنا اگر چہ حافظ پر سنت مؤکدہ نہ تھامگر یہ بل ایقاع ہی ہے بعد وقوع سنت در کنار جتنا پڑھے گا فرض ادا ہوگا کہ نماز میں فرض ابتدائی اگر چہ ایک ہی آیت ہے مگر سارا قرآن عظیم اگر ایک رکعت میں پڑھے سب فرض ہی واقع ہوتا ہے لا نہ فرد
فاقر و اما تیسر من القرآن
ترجمہ: کیونکہ یہ بھی (ارشاد باری تعالی ) ” جو قرآن میں سے آسان ہے پڑھو کا فرد ہے
لہذا اگر سورت بھول کر رکوع میں چلا جائے پھر رکوع میں یاد آئے تو حکم ہے کہ رکوع کو چھوڑے اور کھڑا ہو کر سورت پڑھے اور پھر رکوع کرے حالانکہ ضم سورت صرف واجب تھا اور واجب کے لیے رفض فرض جائز نہیں جیسے قعدہ اولی چھوڑ کر جوسیدھا کھڑا ہو جائے اب اُس عود حلال نہیں کہ قعدہ واجب تھا اور قیام فرض ہے مگر سورت جو پڑھے گا یہ بھی فرض واقع ہوگی توفرض کے لیے رفض فرض ہوا، ولہذا اگر کھڑا ہو کر سورت پڑھے اور اس خیال سے کہ رکوع تو پہلے کر چکا ہوں دوبارہ رکوع نہ کرے نما زباطل ہو جائیگی کہ فرض کے لیے جو فرض چھوڑا گیاؤہ جاتا رہا تھا اس پر فرض تھا کہ رکوع دوبارہ کرتا۔ ایک بار ختم کر کے دوسری راتوں میں دوسراختم نئے لوگوں کو سنانا تو نہایت صاف امر ہے اگر بالفرض کوئی شخص آج اپنی تراویح پڑھ کر آج ہی رات اور لوگوں کی امامت تراویح میں کرے اور قرآن عظیم بنائے تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس قرآن سننے کا ثواب نہ ہوگا۔ روایت مختارہ امام قاضی خاں پر تو ظاہر ہے کہ وہ متنفل محض کے پیچھے تراویح کی اقتداء بلا کراہت جائز مانتے ہیں ، صرف امام کے حق میں کراہت کہتے ہیں اگر نیت امامت کرے ورنہ اس پر بھی کراہت نہیں۔
اور روایت مختارہ امام شمس الائمہ سرخسی پر اگر چہ یہ نا جائز ہے اور ان لوگوں کی تراویح نہ ہوں گی۔۔ اور یہی اصح ہے اور اسی پر فتوی ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ نماز ہی نہ ہوگی ، تراویح نہ ہونا اور بات ہے اور نماز نہ ہونا اور بات۔ تو وہ نماز اگر چه تراویح نہیں یقینا نماز صحیح نقل محض ہے اور نقل محض میں بھی استماع قرآن فرض ہے اور اس ادائے فرض پر کی تو پر ثواب نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں تو قرآن سننے کا ثواب یہاں بھی ہے ہاں روایت مفتی بہا پر اس صورت خاصہ میں یعنی جبکہ امام ہونے کی کوئی وجہ تو بھی ہے ہاں روایت بیا پر اس صورت خاصہ میں یعنی جبکہ اپنی تراویح پڑھ کر اسی رات اوروں کی امامت کرے یہ کہ سکتے ہیں کہ تراویح میں ختم قرآن کا انہیں ثواب نہیں، اور صورت اولی میں تو اس کی طرف بھی اصلا راہ نہیں کہ وہ نماز بلا شبہ تراویح اور ختم ختم فی التراویح ہے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 598 تا 600

READ MORE  تراویح میں پورا قرآن سننے اور پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
مزید پڑھیں:کیا جس طرح دودھ پلانے والی کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، اسی طرح حاملہ کو بھی اجازت ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top