شرعی احکام کے مطابق فیصلہ کرنے والا قاضی (جج) کسے کہیں گے؟
:سوال
شرعی احکام کے مطابق فیصلہ کرنے والا قاضی (جج) کے کہیں گے؟
:جواب
شرعی احکام اور عرفی خیالات میں بہت تفاوت ہے، شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ ہر حاکم پر فرض ہے کہ مطابق احکام الہیہ کے حکم کرے، اگر خلاف حکم الہی کرے تو اس کی دو صورتیں ہیں: ایک عمداً اور ایک خطا۔
عمدا کے لئے قرآن عظیم میں تین ارشاد ہوئے کہ
من لم يحكم بما انزل الله فاولئك هم الفسقون اولئک هم الظلمون و اولئک هم الکفرون
ترجمہ: جو لوگ اللہ تعالی کی نازل کردہ تعلیمات کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں، وہ ظالم ہیں، وہ کافر ہیں۔
قرآن مجید ایسے حکم کو فسق و ظلم و کفر فرماتا ہے یعنی اگر عنا دا ہو کہ حکم کو حق نہیں مانتا تو کافر ہے ورنہ ظالم و فاسق ۔
اور اگر خطا ہوتو اس کی پھر دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ خطا بوجہ جہل ہو یعنی علم نہ رکھتا تھا کہ صحیح احکامسے واقف ہوتا، یہ ہو صورت بھی حرام و فسق ہے صحیح حدیث میں قاضی کی تین قسمیں فرمائیں
قاضی فی الجنة وقاضيان في النار
ایک قاضی جنت میں ہے اور دو قاضی دوزخ میں ۔
وہ کہ عالم و عادل ہو جنت میں ہے اور وہ کہ قصد اخلاف حکم کرے یا بوجہ جہل ، یہ دونوں نار میں ہیں بوجہ جہل پر ناری ہونے کا یہ سبب ہے کہ اس نے ایسی بات پر اقدام کیا جس کی قدرت نہ رکھتا تھا وہ جانتا تھا کہ میں عالم نہیں اور بے علم مطابقت احکام ممکن نہیں، تو مخالفت احکام پر قصداً راضی ہوا، بلکہ اُس سے اگر کوئی حکم مطابق شرع بھی صادر ہو جب بھی وہ مخالفت شرع کر رہا ہے کہ اس اتفاقی مطابقت کا اعتبار نہیں، ولہذا حدیث میں فرمایا
(من قال في القرآن برأيه فأصاب فقد الخطا)
جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہا اگر ٹھیک کہا تو بھی غلط کہا۔
السنن ابی داؤد، ج 2 ص 158، افتاب پریس، لاہور )
مزید پڑھیں:جس مسجد میں جمعہ ہوتا ہے وہاں نماز عید پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
دوسری صورت
خطا کی یہ ہے کہ عالم ہے احکام شرعیہ سے آگاہ ہے قابلیت قضا رکھتا ہے احکام الہیہ کے مطابق ہی فیصلہ کرنا چاہا اور براہ بشریت غلط فہمی ہوئی۔
اس کی پھر دو صورتیں ہیں: اگر وہ مجتہد ہے اور اس کے اجتہاد نے خطا کی تو اس پر اس کے لئے اجر ہے اور وہ فیصلہ جو اس نے کیا نافذ ہے، اور اگر مقلد ہے جیسے عموماً قاضیان زمانہ، اور جدو جہد میں اس نے کمی نہ کی اور فہم حکم میں اس سے غلطی واقع ہوئی اور ہے پورا عالم اور اس عہدہ جلیلہ کے قابل ، تو اس کی یہ خطا معاف ہے مگر وہ فیصلہ نافذ نہیں۔
یہ سب احکام قاضیان سلطنت اسلامیہ سابقہ کے لئے ہیں جو اسی کام کے لئے مقرر ہوئے تھے کہ مطابق احکام الہیہ فیصلہ کریں بخلاف حال کہ اکثر اسلامی سلطنتوں کے جن میں خود سلاطین نے احکام شرعیہ کے ساتھ اپنے گھڑے ہوئے باطل قانون بھی خلط کئے ہیں اور قاضیوں کو ان پر فیصلہ کرنے کا حکم ہے ان کی شناخت کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ ورسول کے خلاف حکم کرنے ہی پر مقرر ہوئے ، ان اسلامی سلطنتوں کے ایسے قاضیوں کو بھی قاضی شرع کہنا حلال نہیں ہو سکتا بلکہ اس کلمہ کی تہہ میں جو خباثت ہے قائل اگر اس پر آگاہ ہو اور اس کا ارادہ کرے تو قطعا خارج از اسلام ہو جائے کہ اس نے باطل کا نام شرع رکھا، و لہذا ائمہ کرام نے اپنے زمانہ کے سلاطین اسلام کی نسبت فرمایا کہ من قال لسلطان زماننا عادل فقد کفر ہمارے زمانے کے سلطان کو عادل کہنا کفر ہے۔
(رد المختار، ج 5 ص 327 مصطفی البابی مصر )
کہ وہ خلاف احکام الہیہ حکم کرتے ہیں اور خلاف احکام الہیہ عدل نہیں ہو سکتا، عدل حق ہے، تو اسے عدل کہنے کے یہ معنی ہوئے کہ خلاف احکام الہیہ حق ہے، تو معاذ اللہ احکام الہیہ ناحق ہوئے اور یہ کفر ہے، بہر حال جو قاضی خلاف احکام الہیہ حکم کرتا ہو، ہرگز قاضی شرع نہیں ہو سکتا، جب قاضیان سلطنت اسلامیہ کی نسبت یہ احکام ہیں تو سلطنت غیر اسلامیہ کے حکام تو مقرر ہی اس لئے کئے جاتے ہیں کہ مطابق قانون فیصلہ کریں۔
READ MORE  چودہ سال کے لڑکے کی امامت کا کیا حکم ہے؟

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top