:سوال
ایک شخص اپنے مال کا ایک بہت بڑا حصہ مختلف قسم کے نیک کاموں میں صرف کرتا ہے، مگر زکوۃ نہیں دیتا، اس کے لیے کیا حکم ہے؟
:جواب
اس سے بڑھ کر احمق کون کہ اپنا مال چھوٹےسچے نام کی خیرات میں صرف کرے اور اللہ عز وجل کا فرض اور اس بادشاہ قہار کاؤہ بھاری قرض گردن پر رہنے دے، شیطان کا بڑا دھوکا ہے کہ آدمی کو نیکی کے پردے میں ہلاک کرتا ہے، نادان سمجھتا ہی نہیں، نیک کام کر رہا ہوں، اور نہ جانا کہ نفل بے فرض نرے دھوکے کی مٹی ہے، اس کے قبول کی امید تو مفقود اور اس کے ترک کا عذاب گردن پر موجود۔
اے عزیز ! فرض خاص سلطانی قرض ہے اور نفل گو یا تحفہ ونذرانہ قرض نہ دیجئے اور بالائی بیکار تھے بھیجئے ، وہ قابل قبول ہوں گے خصوصاً اس شہنشاہ وغنی کی بارگاہ میں جو تمام جہان و جہانیاں سے بے نیاز ؟ یوں یقین نہ آئے تو دنیا کے جھوٹے حاکموں ہی کو آزمانے، کوئی زمین دار مال گزاری تو بند کرلے اور تحفے میں ڈالیاں بھیجا کرے، دیکھو تو سرکاری مجرم ٹھہرتا ہے یا اس کی ڈالیاں کچھ بہبود کا پھل لاتی ہیں !
حضور پر نورسیدنا غوث اعظم مولائے اکرم حضرت شیخ محی المله والدین ابو محمد عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتاب مستطاب فتوح الغیب شریف میں کیا کیا جگر شگاف مثالیں ایسے شخص کے لیے ارشاد فرمائی ہیں جو فرض چھوڑ کر نفل بجالائے ۔ فرماتے ہیں: اس رماتے ہیں: اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے کسی شخص کو بادشاہ اپنی خدمت کے لیے بلائے، یہ وہاں تو حاضر نہ ہوا اور اس کے غلام کی خدمتگاری میں موجود ہے۔
پھر حضرت امیر المومنین مولی المسلمین سید نا مولی علی مرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے اس کی مثال نقل فرمائی کہ جناب ارشاد فرماتے ہیں: ایسے شخص کا حال اس عورت کی طرح ہے جسے حمل رہا جب بچہ ہونے کے دن قریب آئے اسقاط ہو گیا اب وہ نہ حاملہ ہے نہ بچی والی۔ یعنی جب پورے دنوں پر اگر اسقاط ہو تو محنت تو پوری اٹھائی اور نتیجہ خاک نہیں کہ اگر بچہ ہوتا تو ثمرہ خود موجود تھا حمل باقی رہتا تو آگے امید لگی تھی، اب نہ حمل نہ بچہ نہ اُمید نہ ثمرہ اور تکلیف وہی جھیلی جو بچہ والی کو ہوتی ۔ ایسے ہی اس نقل خیرات دینے والے کے پاس روپیہ تو اٹھا مگر جبکہ فرض چھوڑا یہ نفل بھی قبول نہ ہو اتو خرچ کا خرچ ہوا اور حاصل کچھ نہیں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 178 تا 180