:سوال
صحیح مقدار ز کوۃ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے جو ہر سال مقدار واجب سے کم زکوۃ میں دیا گیا ہے وہ زکوۃ میں شمار ہو گا یا نہیں؟
:جواب
بیشک محسوب ( شمار ہوا کہ ادائے زکوۃ کی نیت ضرور (لازم) ہے، مقدار واجب کا صحیح معلوم ہونا شرائط صحت سے نہیں، غایت (زیادہ سے زیادہ) یہ کہ ایک جزء واجب کے ادا میں تاخیر ہوئی اس سے مذہب راجح پر گناہ سہی، زکوۃ مودی ( ادا کی گئی زکوۃ ) کی نفی صحت تو نہیں۔
پس ہر سال جتنا ز کوۃ میں دیاوہ قطعاً ادہوا اور جو باقی رہتا گیاوہ اس پر دین ( قرض ) ہو حتی کہ اگر کسی نصاب سے معارض ہو جائے گا تو اسی قدر مقدار واجب گھٹ جائے گی۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ دین عبد (یعنی بندوں میں جس کا کوئی مطالبہ کرنے والا ہوا اگر چہ دین حقیقہ اللہ عز وجل کا ہو جیسے دین زکوۃ جس کا حق مطالبہ بادشاہ اسلام اعز اللہ نصرہ کو ہے ) انسان کے حوائج اصلیہ سے ہے ایسا دین جس قدر ہو گا اتنا مال مشغول بحاجت اصلیہ قرار دے کر کالعدم ٹھہرے گا اور باقی پر زکوۃ واجب ہوگی اگر بقدر نصاب ہو، مثلاً ہزار روپے پر حولان حول ہو اور اس پر پانسر قرض ہیں تو پانسو پر زکوۃ آئے گی اور ساڑھے نو سودین ہے تو اصلاً نہیں کہ نصاب سے کم ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 126