دو نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے یا نہیں؟
سوال
سفر کے عذر سے دو نمازوں کا ایک وقت میں جمع کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب
نا جائز ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
﴿إِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَبًا مَّوْقُوتًا ﴾
ترجمہ بیشک نمازمسلمانوں پر فرض ہے وقت باندھا ہوا کہ نہ وقت سے پہلے صیح نہ وقت کھو کر پڑھنا بلکہ فرض ہے کہ نماز اپنے وقت پر ادا ہو ۔
حضور پرنورسید عالم صلی الہ تعالی علیہ سلم فرماتے ہیں
ليس في اليوم تفريط انما التفريط في اليقظة ان تؤخر صلاة حتى يدخل وقت صلاة اخری
سونے میں کچھ تقصیر نہیں تقصیر تو جاگنے میں ہے کہ تو ایک نماز کو اتنامو خر کرے کہ دوسرے نماز کا وقت آجائے۔
یہ حدیث خود حالت سفر میں حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی
رواه مسلم و احمد و ابو داود والطحاوي وابن حبان عن أبي قتادة رضى الله تعالى عنہ
مزید پڑھیں:آذان کے بعد مؤذن کا ہر نمازی کو بآواز نماز کے لیے بلانا کیسا ہے؟
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہ سفر و حضر میں حاضر بارگاہ رسالت پناہ امر کاب نبوت مآب رہا کرتے صاف صریح انکار فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی الہ علی علیہ سلم کو کبھی دو نماز میں جمع فرماتے نہ دیکھا مگر مزدلفہ عرفات میں جہاں کی جمع ہنگام حج، حجاج کے لئے سب کے نزدیک متفق علیہ ہے نویں تاریخ عرفات میں ظہر وعصر پھر نویں شب مزدلفہ میں مغرب وعشا ملا کرپڑھتے ہیں۔
مخالفین کے پاس جمع حقیقی ( ایک وقت میں دو نماز جمع کرنے ) پر قرآن وحدیث سے اصلا کوئی دلیل نہیں ۔ جو کچھ پیش کرتے ہیں یا تو جمع صوری صریح ہے یعنی ظہر یا مغرب کو اس کے ایسے آخر وقت میں پڑھنا کہ فارغ ہوتے ہی فوراً یا ایک وقعہ قلیل کے بعد عصر یا عشا کا وقت آ جائے پھر وقت ہوتے ہی معا عصر یا عشا کا پڑھ لینا کہ حقیقت میں تو ہر نماز اپنے وقت پر ہوئی مگر دیکھنے میں مل گئیں ایسی جمع مریض و مسافر کے لئے ہم بھی جائز مانتے ہیں اور حدیثوں سے یہی ثابت ہے۔
یا محض مجمل ( غیر واضح ) ہے جس میں جمع حقیقی کی اصلا بونہیں ۔
یا صاف محتمل ( ان میں جمع صوری کا بھی احتمال ) کہ احادیث جمع صوری سے بہت اچھے طور پر متفق ہو سکتی ہے۔
غرض کوئی حدیث صحیح و صریح مفسر ان کے ہاتھ میں اصلا نہیں، بعو نہ تعالی اس کا نہایت شافی و وافی بیان فقیر نے رسالہ حاجر البحرين البواقي عن جمع الصلاتیں میں لکھا کہ اس سوال کے آنے پر تحریر کیا جسے تحقیق حق منظور ہو اس کی طرف رجوع کرے

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 332

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 04, Fatwa 128
مزید پڑھیں:فجر کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے اور کب تک رہتا ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top