رویت ہلال ( چاند دیکھنے ) کا شریعت میں کس طرح ثبوت ہوتا ہے؟
:سوال
رویت ہلال ( چاند دیکھنے ) کا شریعت میں کس طرح ثبوت ہوتا ہے؟
:جواب
:ثبوت رؤیت ہلال کے لیے شرع میں سات (7) طریقے ہیں
:طریق اول
خود شہادت رؤیت یعنی چاند دیکھنے والے کی گواہی ، ہلال رمضان مبارک کے لیے ایک ہی مسلمان عاقل، بالغ ، غیر فاسق کا مجرد بیان کافی ہے کہ میں نے اس رمضان شریف کا ہلال فلاں دن کی شام کو دیکھا اگر چہ کنیز ہو اگر چہ مستور الحال ہو، جس کی عدالت باطنی معلوم نہیں ظاہر حال پابند شرع ہے اگر چہ اس کا بیان مجلس قضاء میں نہ ہو اگر چہ گواہی دیتا ہوں نہ کہے، نہ دیکھنے کی کیفیت بیان کرے کہ کہاں سے دیکھا کدھر تھا کتنا اونچا تھا وغیر ذلک۔
یہ اس صورت میں ہے کہ 29 شعبان کو مطلع صاف نہ ہو، چاند کی جگہ ابر یا غبار ہو اور بحال صفائی مطلع اگر ویسا ایک شخص جنگل سے آیا یا بلند مکان پر تھا تو بھی ایک ہی کا بیان کافی ہو جائے گا ورنہ دیکھیں گے کہ وہاں کے مسلمان چاند دیکھنے میں کوشش رکھتے ہیں، بکثرت لوگ متوجہ ہوتے ہیں یا کاہل ہیں دیکھنے کی پروا نہیں، بے پروائی کی صورت میں کم سے کم دو در کار ہوں گے اگر چہ مستور الحال ہوں۔
ورنہ ایک جماعت عظیم چاہئے کہ اپنی آنکھ سے چاند دیکھنا بیان کرے جس کے بیان سے خوب غلبہ ظن حاصل ہو جائے کہ ضرور چاند ہوا اگر چہ غلام یا کھلے فساق ہوں اور اگر کثرت حد تواتر کو پہنچ جائے کہ عقل اتنے مخصوں کا غلط خبر پر اتفاق محال جانے تو ایسی خبر مسلم و کا فرسب کی مقبول ہے۔
باقی گیارہ ہلالوں کے واسطے مطلقا ہر حال میں ضرور ہے کہ دو مرد عادل یا ایک مرد دو عور تیں عادل آزاد جن کا ظاہری و باطنی حال تحقیق ہو کہ پابند شرع ہیں، قاضی شرع کے حضور لفظ اشھد گواہی دیں یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اس مہینے کا ہلال فلان دن کی شام کو دیکھا۔
اور جہاں قاضی شرع نہ ہو تو مفتی اسلام اُس کا قائم مقام ہے جبکہ تمام اہلِ شہر سے علم فقہ میں زائد ہو اُس کے حضور گواہی دیں اور اگر کہیں قاضی و مفتی کوئی نہ ہو تو مجبوری کو اور مسلمانوں کے سامنے ایسے عادل دو مر دیا ایک مرد و عورتوں کا بیان ہے لفظ اشھد بھی کافی سمجھا جائے گا، ان گیارہ ہلالوں میں ہمیشہ یہی حکم ہے۔
مگر عیدین میں اگر مطلع صاف ہوا اور مسلمان رؤیت ہلال میں کا ہلی نہیں کرتے ہوں اور وہ دو گواہ جنگل یا بلندی سے نہ آئے ہوں تو اس صورت میں وہی جماعت عظیم درکار ہے، اسی طرح جہاں اور کسی چاند مثلا ہلال محرم کا عام مسلمان پورا اہتمام کرتے ہوں تو بحالت صفائی مطلع جبکہ شاہدین یا بلندی سے نہ آئیں ظاہر ا جماعت عظیم ہی چاہئے کہ جس وجہ سے اُس کا ایجاب رمضان و عیدین میں کیا گیا تھا یہاں بھی حاصل ہے۔
:طريق دوم
شهادة على الشهادۃ یعنی گواہوں نے چاند خود نہ دیکھا بلکہ دیکھنے والوں نے ان کے سامنے گواہی دی اور اپنی گواہی پر انہیں گواہ کیا، اُنہوں نے اُس گواہی دی، یہ وہاں ہے کہ گواہان اصل حاضری سے معذور ہوں
اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ گواہ اصل گواہ سے کہے میری اس گواہی پر گواہ ہو جا کہ میں گواہی دیتا ہوں میں نے ماہ فلاں سنہ فلاں کا ہلال دن کی شام کو دیکھا۔ گواہان فرع یہاں آکر یوں شہادت دیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ فلاں بن فلاں نے مجھے اپنی اس گواہی پر گواہ کیا کہ فلاں بن فلاں مذکور نے ماہ فلاں سنہ فلاں کا ہلال فلاں دن کی شام کو دیکھا اور فلاں بن فلاں مذکور نے مجھ سے کہا کہ میری اس گواہی پر گواہ ہو جا۔
پھر اصل شہادت رؤیت میں اختلاف احوال کے ساتھ جو احکام گزرے ان کا لحاظ ضرور ہے، مثلاً ماہ رمضان میں مطلع صاف تھا تو صرف ایک کی گواہی مسموع نہ ہونی چاہئے جب تک جنگل میں یا بلند مکان پر دیکھا نہ بیان کرے ورنہ ایک کی شہادت اور اس کی شہادت پر بھی صرف ایک ہی شاہد اگر چہ کنیز مستورة الحال ہو بس ہے۔
اور باقی مہینوں میں یہ تو ہمیشہ ضرور ہے کہ ہر گواہ کی گواہی پر دو مرد یا ایک مرد و عورت عادل گواہ ہوں اگر چہ یہی دو مرد ان دو اصل میں ہر ایک کے شاہد ہوں مثلاً جہاں عیدین میں صرف دو عادلوں کی گواہی مقبول ہے زید و عمرو و عادلوں نے چاند دیکھا اور ہر ایک نے اپنی شہادت پر بکر و خال دو مرد عادل کو گواہ کردیا
کہ یہاں آکر بکر اور خالد ہر ایک نے زید و عمرو دونوں کی گواہی پر گواہی دی کافی ہے، یہ ضرور نہیں کہ ہر گواہ کے بعدجداجدادوگواہ ہوں اور یہ بھی جائز ہے کہ ایک اصل خود آ کر گواہی دے اور دوسرا گواہ اپنی گواہی پر دو گواہ جدگا.نہ کر بھیجے، ہاں یہ جائز نہیں کہ ایک گواہ اصل کے دو گواہ ہوں اور انہیں دونوں میں سے ایک خود اپنی شہادت ذاتی بھی دے۔
شہادۃ علی الشہادۃ میں یہ بھی ضرور ہے کہ اُسکے مطابق حکم ہونے تک گوہان اصل بھی اہلیت شہادت پر باقی رہیں اور شہادت کی تکذیب نہ کریں مثلا گواہان فرع نے ابھی نہ دی یادی اور اس پر ہنوز حکم نہ ہوا تھا کہ گواہان اصل سے کوئی گواہ اندھایا گونگا یا مجنون یا معاذ اللہ مرتد ہو گیا کہا کہ میں نے ان گواہوں کو اپنی شہادت کا گواہ نہ کیا تھا یا غلطی سے گواہ کر دیا تھا تو یہ شہادت باطل ہو جائے گی۔
:طريق سوم
شهادة على القضاء یعنی دوسرے کسی اسلامی شہر میں حاکم اسلام قاضی شرع کے حضور رویت ہلال پر شہادتیں گزریں اور اُس نے ثبوت ہلال کا حکم دیا، دو شاہد ان عادل اس گواہی و حکم کے وقت حاضر دارالقضاء تھے، انہوں نے یہاں حاکم اسلام قاضی شرع یاوہ نہ ہو تو مفتی کے حضور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں ہمارے سامنے فلاں شہر کے فلاں حاکم کے حضور فلاں ہلال کی نسبت فلاں دن کی شام کو ہونے کی گواہیاں گزریں اور حاکم موصوف نے اُن گواہیوں پر ثبوت ہلال مذکور شام فلاں روز کا حکم دیا۔
:طریق چهارم
کتاب القاضی الی القاضی یعنی قاضی شرع جسے سلطانِ اسلام نے فصل مقدمات کے لئے مقرر کیا ہو اس کے سامنے شرعی گواہی گزری اُس نے دوسرے شہر کے قاضی شرع کے نام خط لکھا کہ میرے سامنے اس مضمون پر شہادت شرعیہ قائم ہوئی اور اُس خط میں اپنا اور مکتوب الیہ کا نام و نشان پورا لکھا جس سے امتیاز کافی واقع ہو اور وہ خط دو گواہان عادل کے سپرد کیا کہ یہ میرا خط قاضی فلاں شہر کے نام ہے ، وہ با حتیاط اس قاضی کے پاس لائے اور شہادت ادا کی آپ کے نام یہ خط فلاں قاضی فلاں شہر نے ہم کو دیا اور ہمیں گواہ کیا کہ یہ خط اس کا ہے،
اب یہ قاضی اگر اس شہادت کو اپنے مذہب کے مطابق ثبوت کے لیے کافی سمجھے تو اس پر عمل کر سکتا ہے ( اور بہتر یہ ہے کہ قاضی کا تب خط لکھ کر ان گواہوں کو سنا دے یا اس کا مضمون بتادے اور خط بند کر کے اُن کے سامنے سر بمہر کر دے، اور اولی یہ کہ اس کا مضمون ایک گھلے ہوئے پرچے پر الگ لکھ کر بھی ان شہود کو دے دے کہ اسے یاد کرتے رہیں، یہ آکر مضمون پر بھی گواہی دیں کہ خط میں یہ لکھا ہے اور سر بمہر خط اس قاضی کے حوالہ کریں، یہ زیادہ احتیاط کے لیے ہے ورنہ خیر اسی قدر کافی ہے کہ دو مردوں یا ایک مرد و عورتیں عادل کو خط سپرد کر کے گواہ کرلے اور وہ با احتیاط یہاں لاکر شہادت دیں)۔
بغیر اس کے اگر خط ڈاک میں ڈال دیا یا اپنے آدمی کے ہاتھ بھیج دیا تو ہر گز مقبول نہیں اگر چہ وہ خط اسی قاضی کا معلوم ہوتا ہوا اور اس پر اس کی اور اس کے محکمہ قضا کی مہر بھی لگی ہو اور یہ بھی ضرور ہے کہ جب تک یہ خط قاضی مکتوب الیہ کو پہنچے اور وہ اُسے پڑھ لے اُس وقت تک کا تب زندہ رہے اور معزول نہ ہو ورنہ اگر خط پڑھے جانے سے پہلے مرگیا یا برخاست ہو گیا تو اس پر عمل نہ ہوگا اور بحالت زندگی یہ بھی ضرور ہے کہ جب تک مکتوب الیہ اس خط کے مطابق حکم نہ کر لے اُس وقت تک کا تب عہدۂ قضا کا اہل رہے ورنہ اگر حکم سے پہلے کا تب مثلاً مجنوں یا مرتد یا اندھا ہو گیا تو بھی خط بیکار ہو جائے گا۔
:طریق پنجم
استفاضہ یعنی جس اسلامی شہر میں حاکم شرع قاضی اسلام ہو کہ احکام ہلال اس کے یہاں سے صادر ہوتے ہیں اور خود عالم اور ان احکام میں علم پر عام و قائم یا کسی عالم دین محقق محمد پر اعتماد کا ملتزم و لازم ہے یا جہاں قاضی شرع نہیں تو مفتی اسلام مرجع عوام و تقبع الاحکام ہو کہ احکام روزہ و عیدین اُس کے فتوے سے نفاذ پاتے ہیں، عوام کالانعام بطور خود عید در رمضان نہیں ٹھہرا لیتے ، وہاں سے متعدد جماعتیں آئیں اور سب یک زبان اپنے علم سے خبر دیں کہ وہاں فلاں دن بر بنائے رویت روز ہ ہوا یا عید کی گئی۔
مجرد بازادی افواہ خبر اڑ گئی اور قائل کا پتا نہیں، پوچھے تو یہی جواب ملتا ہے کہ سنا ہے یا لوگ کہتے ہیں یا بہت پتا چلا تو کسی مجہول کا انتہا درجہ منتہائے سند دو ایک مخصوں کے محض حکایت کہ انہوں نے بیان کیا اور شدہ شدہ شائع ہوگئی، ایسی خبر ہر گز استفاضہ نہیں۔
بلکہ خود وہاں کی آئی ہوئی متعدد جماعتیں درکار ہیں جو بالا تفاق وہ خبر دیں، یہ خبر اگر چہ نہ خود اپنی رؤیت کی شہادت ہے نہ کسی شہادت پر شہادت، نہ بالتصریح قضائے قاضی پر شہادت نہ کتاب قاضی پر شہادت ، مگر اس مستفیض خبر سے بالیقین یا بہ غلبہ ظن ملتحق بالیقین وہاں رویت و صوم و عید کا ہونا ثابت ہوگا اور جبکہ وہ شہر اسلامی اور احکام و حکام کی وہاں پابندی دوامی ہے تو ضرور مظنون ہوگا کہ امر بحکم واقع ہو اتو اس طریق سے قضائے قاضی کہ حجت شرعیہ ہے ثابت ہو جائیگی۔
اور یہیں سے واضح ہوا کہ تاریک شہر جہاں نہ کوئی قاضی شرع نہ مفتی اسلام، یا مفتی ہے مگر نا اہل جسے خود احکام شرع کی تمیز نہیں، جیسے آج کل کے کے بہت مدعیان خامکار، خصوصاً وہابیہ ، خصوصاً نا غیر مقلدین وغیر ہم فجار یا بعض سلیم الطبع ستنی ناقص العلم تا تجربه کار یا مفتی محقق معتمد عالم مستند ہے مگر عوام خود سر اس کے منتظر احکام نہیں ، پیش خویش اپنے قیاسات فاسدہ پر جب چاہیں عید ورمضان قرار دے لیتے ہیں، ایسے شہروں کی شہرت بلکہ تو اتر بھی اصلاً قابل قبول نہیں کہ اس سے کسی حجت شرعیہ کا ثبوت نہ ہوا
اور ایک صورت یہ بھی متصور کہ دوسرے شہر سے جماعات کثیرہ آئیں اور سب بالا تفاق بیان کریں کہ وہاں ہمارے سامنے لوگ اپنی آنکھ سے چاند دیکھنا بیان کرتے تھے، جن کا بیان مورث یقین شرعی تھا، ظاہر اس تقدیر پر وہاں کسی ایسے حاکم شرع کا ہونا ضرور نہیں کہ رویت فی نفسہا حجت شرعیہ ہے۔
جب جماعت تو اتر جماعت تو اتر سے اُن کی رؤیت کی ناقل ہے تو رؤیت بالیقین ثابت ہوگئی اور شہادت کی حاجت نہ رہی کہ اثبات احکام میں تو اتر بھی قائم مقام شہادت بلکہ اس سے اقوی ہے کہ شہادت بر خلاف تو اتر آئے تو رد کر دی جائے اور نفی پر تو اتر مقبول ہے اور شہادت نا مسموع۔
:طریق ششم
اکمال عدت یعنی جب ایک مہینہ کےتیس 30 دن کامل ہو جا ئیں تو ماہ متصل کا ہلال آپ ہی ثابت ہو جائیگا اگر چہ اس کے لیے رویت شہادت حکم استفاضہ وغیرہ کچھ نہ ہوکہ مہینہ میں سے زائد کا نہ ہونا یقینی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں
(فان غم عليكم فاكملو العدة ثلثين)
اگر مطلع ابر آلود ہو تو تیس کی تعداد مکمل کرو۔
یہ طریقہ صفائی مطلع کی حالت میں کافی ہے اگر چہ ہلال نظر نہ آئے جبکہ گزشتہ ہلال رؤیت واضحہ یا دو گواہان عادل کی شہادت سے ثابت ہو لیا ہو، ہاں اگر ایک گواہ کی شہادت پر ہلال رمضان مان لیا اور اس حساب سےتیس دن آج پورے ہو گئے اور اب مطلع روشن ہے
اور عید کا چاند نظر نہیں آتا تو یہ اکمال عدت کافی نہ ہوگا بلکہ صبح ایک روزہ اور رکھیں کہ اگلے ہلال کا ثبوت حجت تامہ سے نہ تھا اور با وصف صفائی مطلع تھیں کے بعد بھی چاند نظر نہ آنا صاف گواہ ہے کہ اس گواہ نے غلطی کی اور جب کہ وہ ہلال حجت تامہ دو گواہوں عادل سے ثابت تھا تو آج بوصف صفائی مطلع نظر نہ آنا اس پر حمول ہوگا کہ ہلال بہت باریک ہے اور کوئی بخار قلیل المقدار خاص اُس کے سامنے حاجب ہے، جسے صفائی عامہ افق کے سب نظر صفائی مطلع گمان کرتی ہے یا اس کے سوا کوئی اور مانع خفی خلاف معتاد ہے، ہاں اگر آج ابر غبار ہے تو مطلقاتیس پورے کر کے عید کر لیں گے اگر چہ ہلال رمضان ایک ہی شاہد کی شہادت سے مانا ہو کہ اب اس کی غلطی ظاہر نہ ہوئی ۔
:طریق ہفتم
علامہ شامی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تو پیں سننے کو بھی حوالی شہر کے دیہات والوں کے واسطے دلائل ثبوت ہلال سے گنا ظاہر ہے کہ یہاں بھی وہی شرائط مشروط ہوں گے کہ اسلامی شہر میں حاکم شرع معتمد کے حکم سے انتیس کی شام کو توپوں کے فائر صرف بحالت ثبوت شرعی رویت ہلال ہوا کرتے ہوں کسی کے آنے جانے کی سلامی وغیرہ کا اصلاً احتمال نہ ہو ورنہ شہر اگر چہ اسلامی ہو مگر وہاں احکام شرعیہ کی قدر نہیں احکام جہاں بے خرد یا نیچیری رافضی و غیر ہم بد مذہبوں کے حوالے ہیں جنہیں نہ تو اعد شرعیہ معلوم نہ ان کے اتباع کی پروا، اپنی رائے ناقص میں جو آیا اس پر حکم لگادیا توپیں چل گئیں تو ایسی بے سروپا باتیں کیا قابل لحاظ ہوسکتی ہیں کما لا یخفی ۔
پھر جہاں کی تو ہیں شرعاً قابل اعتماد ہوں اُن پر عمل اہل دیہات ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عند التحقیق خاص اس شہر والوں کو بھی ان پر اعتماد سے مفر نہیں کہ حاکم شرع کے حضور شہادتیں گزرنا اُس کا ان پرحکم نافذ کرنا ہر شخص کہاں دیکھا سکتا ہے حکم حاکم اسلام اعلان عام کے لیے ایسی ہی کوئی علامت معہودہ معروفہ قائم کی جاتی ہے جیسے توپوں کے فائر یا ڈھنڈور اوغیرہ۔
: اقول
یہیں سے ظاہر ہوا کہ ایسے اسلامی شہر میں منادی پر بھی عمل ہو گاحتی کہ اس کی عدالت بھی شرط نہیں جبکہ معلوم کے ہو کہ بے حکم سلطانی ایسا اعلان نہیں ہو سکتا۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 405 تا 420

READ MORE  مقتدی کی التحیات پوری نہ ہوئی تھی امام کھڑا ہو گیا تو حکم
مزید پڑھیں:دوسرے شہر میں چاند نظر آنے پر عید کرنا کیسا؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top