:سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کسی رافضی کی نماز جنازہ پڑھنا اہلسنت و جماعت کے لئے جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر کسی قوم سنت و جماعت نے کسی رافضی کی نماز جنازہ پڑھی تو ان لوگوں کے لئے شرع میں کیا حکم ہے؟
:جواب
اگر رافضی ضرویا تو دین کا منکر ہے مثلا قرآن عظیم میں کچھ سورتیں یا آیتیں یا کوئی حرف صرف امیر المو منین عثمان ذی النورین رضی اللہ تعالی عنہ یا اور صحابہ خواہ کس شخص کا گھٹایا ہوا مانتا ہے یا مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم خواه دیگر ائمہ اطہار کو انبیاء سابقین علیهم الصلوة والتسلیم میں کسی سے افضل جانتا ہے اور آجکل یہاں کے رافضی تبرائی عموماً ایسے ہی ہیں ان میں شاید ایک شخص بھی ایسا نہ نکلے جوان عقائد کفریہ کا معتقد نہ ہو
جب تو وہ کافر مرتد ہے اور اس کے جنازہ کی نماز حرام قطعی و گناہ شدید ہے اور اگر ضرویات دین کا مکر نہیں مگر تبرائی ہے تو جمہور ائمہ اور فقہائے عظام کے نزدیک اس کا وہی حکم ہے اور اگر صرف تفضیلیہ ہے تو اس کے جنازے کی نماز بھی نہ چاہئے، متعدد حدیثوں میں بدمذ ہبوں کی نسبت ارشاد ہے (( ان ماتوا فلا تشهد وهم ) وہ مریں تو ان کی جنازہ پر نہ جائیں۔
( سن ابن الہ میں 10 ای ایم سید کہنی، کراچی)
مزید پڑھیں:بے نمازی کی بیوی کا نماز جنازہ کا حکم
ا(( ولا تصلوا عليهم ))ان کے جنازے کی نماز نہ پڑھو۔
(کنز العمال ، ج 11 میں 540 ، مؤسسة الرسالة، بیروت)
نماز پڑھنے والوں کو تو بہ استغفار کرنی چاہئے اور اگر صورت پہلی تھی یعنی وہ مردہ رافضی منکر بعض ضرویات دین تھا اور کسی شخص نے با آں کہ اس کے حال سے مطلع تھا دانستہ اس کے جنازے کی نماز پڑھی اس کے لئے استغفار کی جب تو اس شخص کو تجدید اسلام اور اپنی عورت سے از سر نو نکاح کرنا چاہئے ۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 171