قرآت میں "ض" کو قصدا "ظ" پڑھنا کیسا؟
:سوال
بعض لوگ “ض” کو قصدا ” ظ ” پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں متاخرین علماء کا فتوی ہے کہ جن حروف کا آپس میں امتیاز کرنا مشکل ہو اس میں ان کے لئے رعایت ہے۔
:جواب
 اس قدر تجوید جس کے باعث حرف کو حرف سے امتیاز اور تلبیس و تبدیل سے احتراز حاصل ہو واجبات عینیہ واہم مہمات دینیہ سے ہے، آدمی پر تصحیح مخارج میں سعی تام ( پوری کوشش ) اور ہر حرف میں اس کے مخرج سے ٹھیک ادا کرنے کا قصد و اہتمام لازم کہ قرآن مطابق ما انزل اللہ تعالیٰ ( جیسا اللہ نے نازل کیا ویسا ) پڑھے، نہ معاذ اللہ مداہنت و بے پروائی کہ آجکل کے عوام بلکہ یہاں کے کثیر بلکہ اکثر خواص نے اپنا شعار کر لیا۔
فقیر نے بگوش خود بعض مولوی صاحبوں کو پڑھتے سنا (قل هو الله احد ) حالانکہ نہ ہرگز الله الاحد نے اھد فرمایا نہ امین وحی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اھد پہنچایا نہ صاحب قرآن صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اھد پڑھایا، پھر اسے قرآن کیونکر کہا جائے فانالله وانا اليه راجعون۔
حاشافتوی متاخرین پروانہ بے پروائی نہیں ( کہ ) با وصف قدرت تعلیم تعلم نہ کرنا اور براہ سہل انگاری غلط خوانی قرآن پر مصر و متمادی (اڑے ) رہنا کون جائزر کھے گا ۔ اتقان شریف میں ہے میں المهمات تجويد القرآن وهو اعطاء الحروف حقوقها و رد الحرف الى مخرجه واصله اہم چیزوں میں سے تجوید قرآن سیکھنا بھی ہے اور تجوید حروف کو ان کے حقوق دینا اور ان کو ان کے اصل اور مخرج کی طرف لوٹانا ہے۔
مزید پڑھیں:سورۃ الناس کے بعد الم سے شروع کرنا خلاف ترتیب کیوں نہیں؟
اور احسن الفتاوی فتاوی بزاریہ وغیر ہا میں ہے” ان اللحن حرام بلا خلاف ”غلط پڑھتا بالا جماع حرام ہے۔ ولهذا ائمہ دین تصریح فرماتے ہیں کہ آدمی سے اگر کوئی حرف غلط ہوتا ہو تواس کی صحیح وتعلم میں اس پر کوشش واجب بلکہ بہت علماء نے اس سعی کی کوئی حد مقررنہ کی اور حکم دیا کہ عمربھر روز و شب ہمیشہ جہد کئے جائے کبھی اس کے ترک میں معذور نہ ہوگا۔
تو کیونکر جائز کہ جہدوسعی بالائے طاق سرے سے حرف منزل فی القرآن ( جو قرآن میں نازل ہوا اس کا ) کا قصد ہی نہ کریں بلکہ عملاً اسے متروک و مہجور، اور اپنی طرف سے دوسرا حرف اس کی جگہ قائم کر د ہیں۔
 میں نہیں جانتا کہ اس تبدیل عمدی ( جان بوجھ کر تبدیل کرنے )اور تحریف کلام اللہ میں کتنا تفاوت ( فرق ) مانا جائے گا۔ لا جرم امام اجل ابوبکر محمد بن الفضل فضل و امام برہان الدین محمد بن الصدر السعید وغیر ہما اجلہ کرام نے یہاں تک حکم دیا کہ جو قرآن عظیم میں عمداض کی جگہ ظ پڑھے کا فر ہے۔
پس جز ما لازم کہ ہر حرف میں خاص حرف منزل من عند الله ( جو اللہ کی طرف سے نازل ہوا اس ) ہی کی ادا کا قصد کریں اسی کے مخرج سے اسے نکالنا چا ہیں پھر بوجہ عسر حرف و قصور لسان ( حرف کے مشکل ہونے اور عجمی ہونے کے سبب زبان میں کمی ہونے کی وجہ سے ) اگر غلط ادا ہو تو مثل ض میں کہ اعسر الحروف ( سب سے مشکل حروف ) ہے، تیسیر اعلی الامۃ (امت پر آسانی کرتے ہوئے ) فتویٰ بعض متاخرین پر عمل کر کے صحت نماز کا حکم دینا معیوب نہیں بلکہ محبوب ہے کہ شارع علیہ السلام کویسروآسانی مطلوب و مرغوب ہے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 261

READ MORE  آذان فجر صبح کا ذب میں کہنا چاہئے یا صبح صادق میں؟
مزید پڑھیں:فرض نماز کی ہر رکعت میں ایک سورت کا تکرار کرنا کیسا ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top