:سوال
ایک جامع مسجد کا امام سورہ فاتح شریف میں الحمد و الرحمن والرحیم کی بجائے الھمد والرہمن والرہیم پڑھتا ہے۔ ایسے شخص کو امام بنانا جائز ہے یا نہیں ؟
:جواب
اسے امام بنانا ہرگز جائز نہیں اور نماز اس کے پیچھے نا درست ہے کہ اگر وہ شخص “ح” کے ادا پر با لفعل قادر ہے اور باوجود اس کے اپنی بے خیالی یا بے پروائی سے کلمات مذکورہ میں” ھ” پڑھتا ہے، تو خود اس کی نماز فاسد و باطل ، اوروں کی اسکے پیچھے کیا ہوسکے اور اگر بالفعل ح پر قادر نہیں اور سیکھنے پر جان لڑا کر کوشش نہ کی تو بھی خود اس کی نماز محض اکارت ، اور اس کے پیچھے ہر شخص کی باطل ۔ اور اگر ایک ناکافی زمانہ تک کوشش کر چکا پھر چھوڑ دی جب بھی خود اس کی نماز پڑھی بے پڑھی سب ایک سی ، اور اُس کے صدقے میں سب کی ( فاسد ہو ) گئی۔
اور برابر حد درجہ کی کوشش کیے جاتا ہے مگر کسی طرح ح۔ نہیں نکلتی تو اس کا حکم مثل امی کے ہیں اور اگر کسی صحیح پڑھنے والے کے پیچھے نماز مل سکے اور اقتدا نہ کرے بلکہ تنہا پڑھیں تو بھی اس کی نماز باطل پھر امام ہونا تو دوسرا درجہ ہے اور پر ظاہر ( بہت زیادہ ظاہر) ہے کہ اگر بالفرض عام جماعتوں میں کوئی درست خواں نہ ملے تو جمعہ میں تو قطعاً ہر طرح کے بندگان خدا موجود ہوتے ہیں پھر اس کا انکی اقتدانہ کرنا اورآپ امام ہونا خو اس کی نماز کا مبطل ہوا، اور جب اس کی گئی سب کی گئی۔
بہر حال ثابت ہوا کہ نہ اس شخص کی اپنی نماز ہوتی ہے نہ اسکے پیچھے کسی اور کی تو ایسے کو امام بنانا حرام ہے، اور ان سب مسلمانوں کی نماز کا وبال اپنے سر لیتا ہے و العياذ بالله تعالی ۔
البتہ اگر ایسا ہو کہ تاحد ادنی امید کہ یہ شخص ہمیشہ برابر رات دن تصحیح حرف میں کوشش بلیغ کئے جائے اور با وصف بقائےامید واقعی محض طول مدت سے گبھرا کر نہ چھوڑے اور واجب الحمد شریف کے سوا اول نماز سے آخر تک کوئی آیت یا سورۃ یا ذکر وغیرہ اصلا ایسی چیز نام کو نہ پڑھے جس میں “ح ” آتی اور اسے “ھ” پڑھنے سے نماز جاتی ہو بلکہ قرآن مجید کی (ایسی ) دو سورتیں اختیار کرے جن میں “ح نہیں جیسے سورہ کافرون وسورہ ناس اور ثناء اور تسبیحات رکوع و سجود و تشہد و درود وغیرہ کے کلمات میں جن میں ایسی ح۔ آئی ان کے مرادفات مقاربات سے بدل لے مثلاً بجائے سبحك اللهم وبحمدك ( کے ) اقدسك اللهم مثنيا عليك ( پڑھے) و علی ھذا القیاس (باقی اس پر قیاس کرلیں ) اور اسے کوئی شخص صحیح خواں ایسا نہ ملے
جس کی اقتدا کرے اور جماعت بھر کے سب لوگ اسی طرح “ح” کو۔ ھ۔ پڑھنے والے ہوں تو البتہ جب کوشش کرتا رہے اس کی بھی صحیح ہوگی اور ان سب اس کے مانندوں کی بھی اسکے پیچھے صحیح ہوگی اورجس دن با وصف تنگ آکر کوش چھوڑی یا صحیح القراءة کی اقتداء ملتے ہو ئے تنہا پڑھی یا امامت کی اسی دن اس کی بھی باطل اور اسکے پیچھے سب کی باطل اور جبکہ معلوم ہے کہ یہ شرائط متحقق نہیں تو حکم وہی ہے کہ جمعہ وغیرہ جمعہ کسی میں نہ اس کی نماز درست نہ اس کے پیچھے کسی کی درست۔ یہ جو کچھ مذکور ہوا یہی صحیح ہے راجح ہے یہی مختار ہے یہی مفتی بہ ہے اس پر عمل اس پر اعتماد۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 253