قبرستان یا اسکے قریب گھر بنانا اور رہنا کیسا؟
:سوال
اگر کوئی شخص خاص قبرستان میں یا قرب قبرستان میں مکان تعمیر کرے اور پاخانہ بھی تعمیر کرے اور پاخانہ کی . موری (سوراخ) کا غلیظ پانی قبروں پر ہو کر جائے تو ایسی جگہ مکان بغرض سکونت و رہائش بنانا جائز ہے یا نا جائز ؟ پھر ایسی جگہ جہاں کپڑوں کے دھونے سے غلیظ پانی قبروں پر سے گزرے وہاں دھوبی کپڑے دھو سکتا ہے اور وہ جگہ مسلمان کے قبضے میں ہے یا ملکیت مسلمان ہے تو مسلمان اگر منع نہ کرے یا کرایہ کے لالچ میں دھوبی کے اس عمل مذکور کو جاری رہنے دے، اس کے لئے کیا حکم ہے؟
:جواب
قبرستان وقف ہے اور وقف میں اپنی سکونت کا مکان بنانا تصرف بے جا ہے اور اس میں تصرف بے جا حرام ہے، پھر اس قطعہ میں قبور بھی ہوں اگر چہ نشان مٹ کرنا پید ہوگئی ہوں جب تو متعدد حراموں کا مجموعہ ہے، قبروں پر پاؤں رکھنا ہوگا، چلنا ہوگا، بیٹھنا ہوگا، پیشاب پاخانہ ہوگا، اور یہ سب حرام ہے۔ اس میں مسلمانوں کو طرح طرح ایذا ہے اور مسلمان بھی کون ، اموات کہ شکایت نہیں کر سکتے ، دنیا میں عوض نہیں لے سکتے۔ مسلمانوں کو ایذا اللہ و رسول کی ایذا ہے، اللہ و رسول کو ایذا دینے والا مستحق جہنم۔
اسی طرح اگر قبرستان کے قریب مکان بنایا، پاخانے یا دھوبیوں کے غلیظ پانی کا بہاؤ قبور پر رکھا تو یہ بھی سخت حرام ہے اور جو با وصف قدرت اسے منع نہ کرے وہ بھی مرتکب حرام ہے اور طمع کرایہ سے روا رکھناستے داموں دوزخ مول لینا ہے، یہ کام اسی شخص کے ہوسکتے جس کے دل میں اسلام کی قدر نہ مسلمانوں کی عزت، نہ خدا کا خوف نہ موت کی ہیبت رسول اللہ صلی للہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں مجھے آگ یا تلوار پر چلنا قبر پر چلنے سے زیادہ پسند ہے۔“ اسے ابن ماجہ نے عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی سے بسند جید روایت کیا۔ نیز نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں مردے کی ہڈیاں توڑنا اور اسے ایذا دینا ایسا ہی ہے جیسے زندے کی ہڈی توڑنا ۔
مزید پڑھیں:صحن مسجد میں قبر بنانا کیسا؟
(سنن ابوداؤ دور ج 2 ص 102 ، آفتاب عالم پریس، لاہور )
اور ایک روایت کے لفظ یہ ہیں میت کو قبر کے اندر بھی اس چیز سے ایذا ہوتی ہے جس سے گھر کے اندر ایذا ہوتی ہے۔“
(مرقاۃ شرح مشکوة ، ج 4 ص 79 ، مکتبہ امدادیہ ملتان)
ان تمام صحیح حدیثوں اور ان کے سوا اور احادیث کثیرہ سے ثابت ہے کہ قبر پر بیٹھنا یا پاؤں رکھنا بلکہ صرف اس سے تکیہ لگانے سے میت کو ایذا ہوتی ہے۔ اور مردہ مسلمان کو ایذا ایسی ہے جیسے زندہ مسلمان کی۔ تو اس پر تجھے پانی بہانا کس قدر باعث ایذا ہوگا، جب زندہ مردہ اس میں برابر ہیں تو کیا یہ شخص روار کھے گا کہ پاخانے کا پانی اس پر بہایا جائے یا لوگ اس کے سینے اور منہ پر پیشاب کیا کریں، یا دھوبی ناپاک کپڑے دھو کر وہ پانی اس کے منہ اور سر پر چھڑک دیا کریں، ہرگز کوئی مسلمان بلکہ کوئی کافر اسے اپنے لئے روانہ رکھے گا، تو میت مسلمان کے لئے ایسی سخت ایذ اکس دل سے روار کھی۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 409

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 04, Fatwa 245 to 247
مزید پڑھیں:وقف کے قبرستان میں کسی کا مکان بنانا کیسا؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top