:سوال
ایک مسلمان جو کہ پاخانہ اٹھانے کا پیشہ کرتا ہو، پنج وقتہ نماز پڑھتا ہو اس طرح پر کہ اپنے پیشہ سے فارغ ہو کر غسل کر کے پاک کپڑے پہن کر مسجد میں جائے تو وہ شریک جماعت ہو سکتا ہے یا نہیں اور اگر جماعت میں شریک ہو تو کیا پچھلی صف میں کھڑا ہو یا جہاں اس کو جگہ ملے یعنی اگلی صف میں بھی کھڑا ہو سکتا ہے اور اس طرف بعد نماز صبح و بعد نماز جمعہ نمازی آپس میں مصافحہ کرتے ہیں تو کیا وہ بھی مسلمانوں سے مصافحہ اور مسجد کے لوٹوں سے وضو کر سکتا ہے اور جو صرف جاروب کشی بازار وغیرہ کی کرتا ہو اس کے واسطے شرع شریف کا کیا حکم ہے؟
:جواب
بیشک شریک جماعت ہو سکتا ہے اور بیشک سب سے مل کر کھڑا ہو گا اور بے شک صف اول یا ثانی میں جہاں جگہ پائے گا قیام کرے گا، کوئی شخص بلا وجہ شرعی کسی کو مسجد میں آنے یا جماعت میں ملنے یا پہلی صف میں شامل ہونے سے ہرگز نہیں روک سکتا، اللہ عز وجل فرماتا ہے ﴿أَنَّ الْمَسْجِدَ اللهِ ﴾ بیشک مسجد میں خاص اللہ کے لئے ہیں۔ رسول الله صلى الله تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں “العباد عبد اللہ” بندے سب اللہ کے بندے ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل ، ج 1 ،ص 166 ، دار الفکر، بیروت)
جب بندے سب اللہ کے، مسجد یں سب اللہ کی ،تو پھر کوئی کسی بندے کو مسجد کی کسی جگہ سے بے حکم الہی کیونکر روک سکتا ہے۔ اللہ عزو جل نے کہ ارشاد فرمایا” مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسْجِدَ اللهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُه ” اس سے زیادہ ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں کو رو کے ان میں خدا کا نام لینے سے۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ بادشاہ حقیقی عز جلالہ کا یہ عام در بار خان صاحب شیخ صاحب ، مغل صاحب یا تجار زمیندار معافی دار ہی کے لئے ہے کم قوم یا لیل پیشہ والے نہ آنے پائیں ، علماء جو ترتیب صفوف لکھتے ہیں اس میں کہیں قوم یا پیشہ کی بھی خصوصیت ہے ہر گز نہیں، وہ مطلقاً فرماتے ہیں ” يصف الرجال ثم الصبيان ثم الخنائي ثم النساء ”یعنی صف باندھیں مرد پھر لڑ کے پھر خنثی پھر عورتیں۔ بیشک زبال یعنی پاخانہ کمانے والا یا کناس یعنی جاروب کش مسلمان پاک بدن پاک لباس جبکہ مرد بالغ ہو تو وہ اگلی صف میں کھڑا ہو جائے گا اور خان صاحب اور شیخ صاحب مغل صاحب کے لڑکے پچھلی صف میں جو اس کا خلاف کرے گا حکم شرع کا عکس کرے گا۔
(در مختار، ج 1 ،ص 84 ،مجتبائی ،دہلی)
شخص مذکور جس صف میں کھڑا ہوا گر کوئی صاحب اسے ذلیل سمجھ کر اس سے بیچ کر کھڑے ہوں گے کہ بیچ میں فاصلہ رہے وہ گنہ گار ہوں گے اور اس وعید شدید کے مستحق کہ حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ” من قطع صفا قطعه الله” جو کسی صف کو قطع کرے اللہ اسے کاٹ دے گا۔
( سنن ابوداؤد، ج 1 ، ص 197، آفتاب عالم پریس، لاہور )
مزید پڑھیں:دوسرے مقتدی کا نماز میں شامل ہونے کا طریقہ
اور جو متواضع مسلمان صادق الایمان اپنے رب اکرم و نبی اعظم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا حکم بجالانے کو اس سے شانہ بشانہ خوب مل کر کھڑا ہوگا اللہ عز وجل اس کا رتبہ بلند کرے گا اور وہ اس وعدہ جمیلہ کا مستحق ہوگا کہ حضور انور سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ”من وصل صفا وصله الله ” جو کسی صف کو وصل کرے اللہ اسے وصل فرمائے گا۔
( سنن ابوداؤد، ج 1 ،ص 97 ، آفتاب عالم پریس، لاہور )
دوسری جگہ ہمارے نبی کریم علیہ وعلی آلہ ضل الصلاة والسلم فرماتے ہیں” الناس بنوادم وادم من تراب ”لوگ سب آدم کے بیٹے ہیں اور آدم مٹی ہے۔
(جامع الترندی، ج 2 ، ص 159 ، امین کمپنی کتب خانہ رشید یہ ،دہلی)
دوسری حدیث میں ہے، حضور اقدس صلی الہ تعالی علیہ سلم فرماتے ہیں” یا ایها الناس ان ربكم واحد وان اباكم واحد ألا لا فضل لعربي على عجمى ولا لعجمي على عربي ولالاحمر على اسود ولا لاسود على احمر الا بالتقوى ان اکرمکم عند اللہ اتقکم” اےلوگو!بیشک تم سب کا رب ایک اور بیشک تم سب کا باپ ایک ،سن لو کچھ بزرگی نہیں عر بی کو عجمی پر،نہ عجمی کو عر بی پر ،نہ گورے کو کا لے پر ،نہ کالے کو گورے پر مگر پرہیز گاری سے ،بیشک تم میں بڑ ے رتبے والاو ہ ہے جو تم میں زیادہ پر ہیزگار ہے۔
(شعب الایمان ،ج 4 ،ص 289، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
ہاں اس میں شک نہیں کہ زبالی شرعاً مکروہ پیشہ ہے، جبکہ ضرورت اس پر باعث نہ ہو مثلاً جہاں نہ کافر بھنگی پائے جاتے ہوں جو اس پیشہ کے واقعی قابل میں نہ وہاں زمین مثل زمین عرب ہو کہ رطوبت جذب کر لے ایسی جگہ اگر بعض مسلمین مسلمانوں پر سے دفع اذیت و تنظیف بیوت ( گھروں کی پاکی وصفائی ) و حفظ صحت کی نیت سے اسے اختیار کریں تو مجبوری ہے اور جہاں ایسا نہ ہو تو بیشک کراہت ہے۔۔ وہ بھی ہر گز حد فسق تک منتہی نہیں۔ مگر ان قوم دار حضرات کا اس سے تنفر ہر گز اس بنا پر نہیں کہ یہ ایک امر مکروہ کا مرتکب ہے وہ تنفر کرنے والے حضرات خود صد ہا امور محرمات و گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں تو اگر اس وجہ سے نفرت ہو تو وہ زیادہ لائق تنفر میں ان صاحبوں کی صفوں میں کوئی نشہ باز یا قمار یا سود خوار شیخ صاحب تجار یا رشوت ستاں مرزا صاحب عہدہ دار آ کر کھڑے ہوں تو ہر گز نفرت نہ کریں گے اور اگر کوئی کپتان یا کلکٹر صاحب یا جنٹ مجسٹریٹ صاحب یا اسٹنٹ کمشنر صاحب یا جج ما تحت صاحب آ کر شامل ہوں تو ان کے برابر کھڑے ہونے کو تو فخر سمجھیں گے حالانکہ اللہ و رسول کے نزدیک یہ افعال اور پیشے کسی فعل مکروہ سے بدر جہا بدتر ہیں۔
مزید پڑھیں:امام کا مصلی صف اول کے ساتھ ملا ہوا ہو یا جدا؟
تو ثابت ہوا کہ ان کی نفرت خدا کے لئے نہیں بلکہ محض نفسانی آن بان اور رسمی تکبر کی شان ہے، تکبر ہر نجاست سے بدتر نجاست ہے اور دل ہر عضو سے شریف تر عضو افسوس کہ ہمارے دل میں تو یہ نجاست بھری ہو اور ہم اس مسلمان سے نفرت کریں جو اس وقت پاک صاف بدن دھوئے پاک کپڑے پہنے ہے ، غرض جو حضرات اس بیہودہ وجہ کے باعث اس مسلمان کو مسجد سے روکیں گے وہ اس بلائے عظیم میں گرفتار ہوں گے جو آیت کریمہ میں گزری کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہے ، اور جو حضرات خود اس وجہ سے مسجد و جماعت ترک کریں گے وہ ان سخت سخت ہولناک وعیدوں کے مستحق ہوں گے جو ان کے ترک پر وارد ہیں، یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا” الجفاء كل الجفاء والكفر والنفاق من سمع منادى الله ينادي ويدعوا إلى الفلاح فلا یجیبہ” ظلم پورا ظلم اور کفر اور نفاق ہے کہ آدمی مؤذن کو سنے کہ نماز کے لئے بلاتا ہے اور حاضر نہ ہو۔
(لمعجم الکبیر، ج 20 ،ص183 ،مکتبہ فیصلیہ، بیروت )
اور جو بندہ خدا اللہ عزوجل کے احکام پر گردن رکھ کر اپنے نفس کو دبائے گا اور اس مزاحمت و نفرت سے بچے گا مجاہدہ نفس و تواضع کا اللہ سے ثواب جلیل پائے گا۔ بھلا فرض کیجئے کہ ان مساجد سے تو ان مسلمانوں کو روک دیا وہ مظلوم بیچارے گھروں پر پڑھ لیں گے، سب میں افضل داعلیٰ مسجد مسجد الحرام شریف سے انہیں کون روکے گا ، اس مسلمان پر اگر حج فرض ہو تو کیا اسے حج سے روکیں گے اور خدا کے فرض سے باز رکھیں گے یا مسجد الحرام سے باہر کوئی نیا کعبہ اسے بنادیں گے کہ اس کا طواف کرے۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو ہدایت بخشے آمین۔
اس تقریر سے ثابت ہو گیا کہ مسجد کے لوٹے جو عام مسلمانوں پر وقف ہیں ان سے وضو کو بھی اسے کوئی منع نہیں کر سکتا جبکہ اس کے ہاتھ پاک ہیں۔ رہا مصافحہ خود ابتدا کرنے کا اختیار ہے کیجئے یا نہ کیجئے ، ”فان المصافحة بعد الصلوات على الأصح من المباحات والمباح لا يلام على فعله ولا ترکہ” ترجمہ: اصح قول کے مطابق نمازوں کے بعد مصافحہ مباح ہے اور مباح کے کرنے یا نہ کرنے پر ملامت نہیں ہوتی ۔
مگر جب وہ مسلمان مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے اور آپ اپنے اس خیال بے معنی پر ہاتھ کھینچ لیجئے تو بیشک بلا وجہ شرعی اس کی دل شکنی ، اور بیشک بلا وجہ شرعی مسلمان کی دل شکنی حرام قطعی ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ” من اذی مسلما فقد أذانی ومن أذانی فقد أذى الله” جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے بیشک مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے بیشک اللہ عزوجل کو ایذا دی۔
(مجمع الزوائد، ج 2 ،ص 179 ، دار الکتاب، بیروت )
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 132