سوال
نابالغ لڑکا کہ نوافل میں قرآن شریف پڑھتا ہے اگر بوجہ کثرت ضعف و محنت دور روزہ نہ رکھے تو کیا حکم ہے؟
جواب
نابالغ پر تو قلم شرع جاری ہی نہیں وہ اگر بے عذر بھی افطار کرے اُسے گنہ گار نہ کہیں گے۔ مگر بیان کرنا اس کا ہے کہ بچہ جیسے آٹھویں سال میں قدم رکھے اس کے ولی پر لازم ہے کہ اسے نماز روزے کا حکم دے، اور جب اُسے گیارہواں شروع ہو تو ولی واجب ہے کہ صوم و صلوۃ پر مارے بشرطیکہ روزے کی طاقت ہو اور روزہ ضرر نہ کرے۔ اور پر ظاہر کہ یہ احکام حدیچ وفقہ میں مطلق و عام، تو ولی نا بالغ ہفت سال ( سات سال کے نابالغ ) یا اس سے بڑے کہ اسی وقت ترک صوم کی اجازت دے سکتا ہے جبکہ فی نفسہ روزہ اسے ضر پہنچائے ورنہ بلاعذر شرعی اگر روزہ چھڑائے گایا چھوڑنے پر سکوت کرے گا گنہ گار ہو گا کہ اس پر امر یا ضرب شرع لازم اور تارک واجب۔ اور دور کلام اللہ کی محنت عذرا فطار نہیں۔
اولا اکثر ہوتا ہے کہ بچے بہت جوان قوی تندرست لوگ ایسے امور میں کم ہمتی کو بے قدرتی سمجھ لیتے حالانکہ کمر ہمت چست باندھیں تو کھل جائے کہ عجز سمجھنا صرف وسوسہ تھا اور واقعہ میں عجز ہو بھی یعنی روزہ رکھ کر کلام اللہ شریف پر محبت شاقہ نہیں ہو سکتی تو راہ یہ ہے کہ روزہ رکھوائیں اور قرآن مجید کا جتنا شغل بے کلفت ( بلا تکلیف) ہو سکے لیں اور جس قدر کی طاقت نہ دیکھیں بعد رمضان دور آئندہ پر ملتوی رکھیں کہ شرعا صیام کے لیے ایام معین ہیں جن کے فوت سے ادا ہو گیا اور دور کے لیے کوئی دن مقرر نہیں ہمیشہ و ہر وقت کر سکتے ہیں فرض کیجئے اگر مرد نو جوان تندرست مقیم کی یہی حالت ہوتی ہے کہ روزے کے ساتھ محنت دور نہ کر سکتا تو کیا شرع اسے اجازت دیتی کہ دور کے لیے روزہ ترک کرے، حاشاو کلا ، بلکہ لازم فرماتی کہ روزہ رکھ اور دور دور دیگر پر موتوف رکھے، تو معلوم ہوا اس میں خیر ہے، اور اس کے عکس میں شر، اور ولی کو چاہئے بچے کو ہر خیر کا حکم دے اور ہر شر سے باز رکھے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 345 تا 347