:سوال
مقتدیوں کے ستونوں کے درمیان کھڑے ہونے کی ممانعت پر دلائل اور ممانعت کی وجہ بیان فرمادیں ؟
:جواب
سنن ابن ماجہ میں ہے” عن معوية بن قرة عن ابيه رضى الله تعالى عنه قال كناننهى أن نصف بين السواري على عهد رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم ونطرد عنها طردا” ترجمہ قرہ بن ایاس مزنی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں دوستونوں کے بیچ صف باندھنے سے منع فرمایا جاتا اور وہاں سے دھکے دے کر ہٹائے جاتے تھے۔ عمدة القاری شرح صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رہی اللہ تعالی عنہ سے ہے کہ انہوں نے فرمایا ”لا تصفو ا ہین الاساطين واتموا الصفوف ” ستونوں کے بیچ میں صف نہ باندھو اور صفیں پوری کرو۔
اور اس کی وجہ قطع صف سے اگر تینون دروں میں لوگ کھڑے ہوئے تو ایک صف کے تین ٹکڑے ہوئے اور یہ نا جائز ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”من قطع صفا قطعہ اللہ” جو کسی صف کو قطع کرے اللہ سے قطع کر دے۔ اور بعض دروں میں کھڑے ہوئے بعض خالی چھوڑ دے جب بھی قطع صف ہے کہ صف ناقص چھوڑ دی کاٹ دی پو ری نہ کی اوراس کا پورا کرنا لازم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اتنمو الصفوف ” ترجمہ صفوں کو مکمل کرو۔
مزید پڑھیں:مسجد کا محراب بالکل قبلہ رخ نہ ہو تو نماز کا حکم؟
اور اگر اس وقت زائد لوگ نہ ہوں تو آنے سے کون مانع ہے ( یعنی بعد میں تو آسکتے ہیں ) تو یہ ممنوع کا سامان مہیا کرنا ہے اور وہ بھی ممنوع ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے (تلك حدود الله فلا تقربوھا )ترجمہ یہ اللہ تعالی کی حدود ہیں پس ان کے توڑنے کے قریب مت جاؤ۔ اور دروں میں مقتدیوں کے کھڑے ہونے کو قطع صرف نہ سمجھنا محض خطا ہے۔ علمائے کرام نے صاف تصریح فرمائی کہ اس میں قطع صف ہے۔ صحیح بخاری میں ہے باب الصلاة بين السواری فی غیر جماعة ” ( باب جماعت کے علاوہ ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے کا ) ۔
امام علامہ محمود عینی کہ اجلہ ائمہ حنفیہ سے میں اس شرح میں فرماتے ہیں” قید بغير جماعة لأن ذلك يقطع الصفوف وتسوية الصفوف في الجماعة مطلوبة بعینہ ”غیر جماعت کی قید اس لئے ہے کہ یہ (نمازی کادوستونوں کےدرمیان ٹھرنا )صفوں کو توڑنا ہے حالانکہ صفوں کا مکمل و برابر ہونا جماعت میں مطلوب ہے ۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 133