مقتدی کا امام کے پیچھے قرآت کرنا کیسا ؟
:سوال
مقتدی کا امام کے پیچھے قرآت کرنا کیسا ؟
:جواب
مذہب حنفیہ درباره قرآت مقتدی ( مقتدی کی قرآت کے بارے میں حنفیہ کا مذاہب ) عدم اباحت( نا جائز ) و کراہت تحریمیہ ہے۔
احادیث و آثار کہ اس باب میں وارد بے حدو شمار ( ہیں )، یہاں خوف طوالت بیان بعض پر اقتصار ( کیا جائے گا )
حدیث سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم فرماتے ہیں اذصليتم فاقيموا صفوفكم ثم ليؤمكم أحدكم فاذاكبر فكبر واو اذا قر أفانصتوا ، یعنی جب تم نماز پڑھوا پنی صفیں سیدھی کرو پھر تم میں کوئی امامت کرےوہ تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو اورجب وہ قرآت کرے تم چپ رہو۔
حدیث سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ”انما الامام ليؤتم به فاذا كبر فكبر وا اذاقرا فانصتواھذا الفظ النسائی ”۔ یعنی امام تو اس لئے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی کہو اور جب قرات کرے خاموش رہو ۔ یہ نسائی کے الفاظ ہیں۔
امام مسلم بن حجاج نیشا پوری رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی صحیح میں اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں کہ میرے نزد یک صحیح ہے۔
حدیث ترمزی اپنی جامع میں سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی ”من صلى ركعة لم يقره فيها بام القرآن فلم يصل الا ان يكون وراء الامام ”یعنی جو کوئی رکعت بے سورہ فاتحہ کے پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی مگر جب امام کے پیچھے ہو ۔
هكذا رواه مالك في مؤطاه موقوفا (اسی طرح اس حدیث کو امام مالک نے موطا میں موفو قا روایت کیا ہے )۔ اور امام ابو جعفر احمد بن سلامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے معانی الآثار میں اسے روایت کیا اور ارشادات سیدمر سلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے قرار دیا۔ حافظ ابو عیسی ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
مزید پڑھیں:ضمیر جمع متکلم کے الف کا حکم
حدیث حضور اقدس سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشاد فر ماتے ہیں ” من صلى خلف الامام فان قراة الإمام له قراۃ “ یعنی جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کا پڑھنا اس کا پڑھنا ہے۔
فقیر کہتا ہے یہ حدیث صحیح ہے رجال اس کے سب رجال صحاح ستہ ہیں ۔
و رواه محمد هكذ امرفوعا من طريق اخر ( اس کو امام محمد نے مرفوعا دوسری سند سے روایت کیا ہے ) ۔ حاصل حدیث کا یہ ہے کہ مقتدی کو پڑھنے کی کچھ ضرورت نہیں امام کا پڑھنا کفایت کرتا ہے۔
حدیث “صلى رسول الله صلی اللہ تعالی عليه وسلم بالناس فقر أرجل خلفه فلما قضى الصلوة قال ايكم قرا خلفي ثلث مرات فقال رجل انا يا رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم قال صلى الله تعالى عليه وسلم من۔ صلى خلف الامام فإن قرأة الامام له قرأة “خلاصہ مضمون یہ ہے کہ سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑ ھائی ایک شخص نے حضور کے پیچھے قرآت کی سید اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہو کر ارشادفرمایا کس نے میرے پیچھے پڑ ھا لوگ بسبب خوف حضور کے خاموش ہو ر ہے، یہاں تک کہ تین بار بتکرار یہی استفسار فرمایا، آخر ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم میں نے ارشاد ہوا کہ جو امام کے پیچھے ہو اس کے لئے امام کا پڑھنا کافی ہے
حديث ابو حنيفة رضى الله تعالى عنه عن حماد بن ابراهيم ان عبد الله بن مسعود رضي الله تعالیٰ عنه لم يقرأ خلف الامام لا في الركعتين الاولين ولا في غيرهما ” یعنی سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے امام کے پیچھے قرأت نہ کی نہ پہلی دورکعتوں میں نہ ان کے غیر میں۔
فقیر کہتا ہے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ جوا فاضل صحابہ ومومنین سابقین سے ہیں حضر و سفر میں ہمراہ رکاب سعادت انتساب حضور رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رہتے اور بارگاہ نبوت میں بے اذن لئے جانا اُن کے لئے جائز تھا بعض صحابہ فرماتے ہیں ہم نے راہ وروش سرور انبیاء علیہ التحیۃ والثنا سے جو چال ڈھال ابن مسعود کی ملتی پائی کسی کی نہ پائی ، خود حضور اکرم الاولين والآ خرین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں رضیت لا متى ما رضى لها ابن ام عبد و كرهت لامتی ماكره لها ابن امر عبد ” میں نے اپنی امت کے لئے وہ پسند کیا جو عبد اللہ بن مسعود اس کے لئے پسند کرے اور میں نے اپنی امت کے لئے نا پسند کیا جو اس کے لئے عبد اللہ بن مسعود نا پسند کرے۔
مزید پڑھیں:نماز میں قرآت کرتے ہوئے وقف نہ کیا تو کیا حکم ہے؟
گویا ان کی رائے حضور والا کی رائے اقدس ہے اور معلوم ہے کہ جناب ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ جب مقتدی ہوتے فاتحہ وغیر و کچھ نہیں پڑھتے تھے اور ان کے سب شاگردوں کا یہی و تیر ہ تھا ۔ حدیث سئل عبد الله بن مسعود رضی الله تعالى عنه عن القرأة خلف الإمام قال انصت فان في الصلوة لشغلا سيكفيك ذلك لامام “خلاصه یہ کہ سید نا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درباره قرات مقتدی سوال ہوا ، فر ما یا خاموش ره کہ نماز میں مشغولی ہے یعنی بیکار باتوں سے باز رہنا عنقریب تجھے امام اس کام کی کفایت کر دے گا یعنی نمار میں تجھے لالطائل باتیں روا نہیں ، اور جب امام کی قرآت بعینہ اس کی قرات ٹھہر تی ہے تو پھر مقتدی کا خود قرأت کرنا محض لخونا شائستہ ہے۔
فقیر کہتا ہے یہ حدیث اعلی درجہ صحاح میں ہے اس کے سب رواۃ ائمہ کبا رور جال صحاح ستہ ہیں۔
اثر ابو حنيفة عن حماد عن إبراهيم انه قال لم يقرأ علقمة خلف الامام حرفا لا فيما يجهر فيه القراة ولا فيما لا يجهر فيه ولا قرأ في الآخريين بأم الكتاب ولا غيرها خلف الامام ولا اصحاب عبد الله جميعا یعنی علقمہ بن قیس کہ کبار تابعین و اعاظم مجتہدین اور افقہ تلامذہ سیدنا بن مسعود ہیں امام کے پیچھے ایک حرف نہ پڑھتے چاہے جہر کی قرآت ہو چاہے آہستہ کی اور نہ پچھلی رکعتوں میں فاتحہ پڑھتے اور نہ اور کچھ جب امام کے پیچھے ہوتے اور نہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے (دیگر ) اصحاب میں سے کسی نے (امام کے پیچھے ) قرآت کی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔
اثر محمد في الموطا اخبرنا بكير بن عامر مرتنا ابرهيم النخعي عن علقمة بن قيس قال لان اعض على حمر۔ة أحب إلى من ان اقرا حلف الامام ، یعنی حضرت علقمہ بن قیس فرماتے ہیں البتہ آگ کی چنگاری منہ میں لینا مجھے اس سے زیادہ پیاری ہے کہ میں امام کے پیچھے قرآت کروں۔
 اثر۔ محمد ايضا اخبرنا اسرائيل من يونس ثنا منصور عن ابراهيم قال ان اول من قرأ خلف الامام رجل انهم یعنی ابراہیم بن سوید النخعی نے کہ رؤسائے تابعین وائمہ دین متین سے ہیں تحدیث و فقاہت ان کی آفتاب نیمروز ہے فرمایا پہلے جس شخص نے امام کے پیچھے پڑھا وہ ایک مرد مہتم تھا۔
حاصل یہ کہ امام کے پیچھے قرآت ایک بدعت ہے جو ایک بے اعتبار آدمی نے احداث کی۔  فقیر کہتا ہے رجال اس حدیث کے رجال صحیح مسلم ہیں۔
حدیث امام مالک اپنی موطا میں اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالی اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں ” وهذا سباق مالك عن نافع ان عبد الله بن عمر رضى الله تعالى عنهما كان اذا سئل هل يقرأ احد خلف الامام قال اذا صلى احدكم خلف امام فحسبه قرأة الامام واذا صلى وحده فليقرأ قال وكان عبد الله بن عمر رضي الله تعالى عنهما لا يقر أخلف الامام یعنی سید نا و ابن سید نا عبداللہ بن امیر المؤمنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہما سے جب در بارہ قرآت مقتدی سوال ہوتا فرماتے جب کوئی تم میں امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اسے قرآت امام کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو قرآت کرے۔
مزید پڑھیں:اعراب میں غلطی کرنے سے نمازمیں کیا اثر پڑتا ہے؟
نافع کہتے ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہا خود امام کے پیچھے قرأت نہ کرتے۔
فقیر کہتا ہے یہ سند بھی مثل سابق کے ہے اور اس کے رجال بھی رجال صحاح ستہ ہیں ، بلکہ بعض علماء نے روایات نافع عن عبید اللہ بن عمر کوامام مالک پر ترجیح دی۔
 حدیث : امام ابو جعفر احمد بن محمد لحاوی رحمۃاللہ علیہ معانی الآثار میں روایت کرتے ہیں ” حدثنا ابن وهب فساق باستاده عن زيد بن ثابت رضی الله تعالى عنه سمعه يقول لا يقرأ المؤتم خلف الامام في شيء من صلاة “ یعنی سید نا زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مقتدی امام کے پیچھے کسی نماز میں قرات نہ کرے یعنی نماز جہر یہ ہو یا سریہ۔
 حدیث : سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے کہ افاضل صحابہ وعشرہ مبشرہ و مقربان بارگاہ سے ہے منقول ہےانھوں نے فرمایا ” وددت ان الذى يقرأ خلف الامام في فيه جمرة ” یعنی میرا جی چاہتا ہے کہ امام کے پیچھے پڑھنے والے کے منہ میں انگارہ ہو۔
حدیث: حضرت امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا” ليت في فم الذى يقرأ خلف الامام حجرا ” یعنی کاش جو شخص امام کے پیچھے قرأت کرے اُسکے منہ میں پتھر ہو۔
فقیر کہتا ہے رجال اس حدیث کے برشرط صحیح مسلم ہیں۔
 الحاصل ان احادیث صحیحہ و معتبرہ سے مذہب حنفیہ بحمد اللہ ثابت ہو گیا۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 240 تا 246

READ MORE  مسبوق کا سجدہ سہو کے لیے امام کے ساتھ سلام پھیرنا کیسا؟
مزید پڑھیں:شوافع کے موقف قرآت خلف الامام کے دلائل کا جواب کیا ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top