امام علامہ عارف باللہ سیدی عبد الغنی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے حدیقہ ندیہ میں تصریحا ارشاد کیا کہ مقابر میں شمعیں روشن کرنا جب کسی فائدہ کے لئے ہو ہر گز منع نہیں، فائدہ کی متعدد مثالیں فرمائیں:
(1)
وہاں کوئی مسجد ہو کہ نمازیوں کو بھی آرام ہوگا اور مسجد میں بھی روشنی ہوگی۔
(2)
مقابر بر سر راہ ہوں روشنی کرنے سے راہ گیروں کو نفع پہنچے گا اور اموات کو بھی کہ مسلمان مقابر مسلمین دیکھ کر سلام کریں گے، فاتحہ پڑھیں گے، دعا کریں گے ، ثواب پہنچائیں گے گزرنے والوں کی قوت زائد ہے تو اموات برکت لیں گے اور اگر اموات کی قوت زائد ہے تو گزرنے والے فیض حاصل کریں گے۔
مقابر میں اگر کوئی بیٹھا ہو کہ زیارت یا ایصال ثواب یا افادہ (فائدہ پہنچانے) یاستفادہ (فائدہ حاصل کرنے) کے لئے آیا ہے تو اسے روشنی سے آرام ملے گا، قرآن کو دیکھ کر پڑھنا چاہے تو پڑھ سکے گا۔
(4)
وہ تینوں منافع مزارات اولیاء کرام قدسنا اللہ تعالی باسراہم کو بھی بروجہ اولی شامل تھے کہ مزارات مقدسہ کے پاس غالبا مساجد ہوتی ہیں۔ گزرگاہ بھی بہت جگہ ہے اور حاضرین زائرین خواہ مجاورین سے تو نا در خالی ہوتے ہیں۔ مگر امام ممدوح ان پر اکتفا نہ فرما کر خود مزارات کریمہ کیلئے با لتخصیص روشنی میں فائدہ جلیلہ کا افادہ فرماتے ہیں کہ ان ( اولیاء کرام) کی ارواح طیبہ کی تعظیم کیلئے روشنی کی جائے۔
(میں کہتا ہوں ) ظاہر ہے کہ روشنی دلیل اعتناء ہے اور اعتناء ( توجہ دینا ) دلیل تعظیم اور تعظیم اہل اللہ دلیل ایمان و موجب رضائے رحمان عز جلالہ قال الله عز وجل ومن يعظم شعائر الله فانها من تقوى القلوب ) ترجمہ: جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو وہ دلوں کی پر ہیز گاری سے ہے۔ اس کی نظیر مصحف شریف کا مطلا و مذ ہب کرنا ( قرآن کے اوپر سونے کا پانی چڑھانا) ہے کہ اگر چہ سلف ( پہلے دور ) میں نہ تھا، جائزو مستحب ہے کہ دلیل تعظیم وادب ہے۔
یوں ہی مساجد کی آرائش ان کی دیواروں پر سونے چاندی کے نقش و نگار کہ صدر اول میں نہ تھے۔ مگراب ظاہری تزک و احتشام ( ظاہری شان و شوکت ) ہی قلوب عامہ ( عوام کے دلوں پر اثر تنظیم پیدا کرتا ہے۔ لہذا ائمہ دین نے حکم جواز دیا۔ یونہی مسجدوں کیلئے کنگرے بنانا کہ مساجد کے امتیاز اور دور سے ان پر اطلاع کا سبب ہیں اگر چہ صد راول میں نہ تھے مگر اب بلا نکیر ( بغیر انکار کے ) مسلمانوں میں رائج ہے۔ وما راه المسلمون حسنا فهو عنداللہ حسن ترجمہ: اور جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ خدا کے یہاں بھی اچھا ہے۔
(مسند احمد بن مقبل ، ج 1 مس 378، دار الفکر، بیروت ) (ص 481)