معراج کی رات جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انبیا علیہم السلام کی جماعت کروائی تو اس وقت اذان واقامت کہی گئی، اس سے کیا مراد ہے؟
:سوال
آذان کا آغاز مدینہ منورہ میں ہوا تو معراج کی رات جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انبیا علیہم السلام کی جماعت کروائی تو اس وقت اذان واقامت کہی گئی، اس سے کیا مراد ہے؟ حالانکہ معراج مکہ میں ہوئی ، اور آذان واقامت کا آغاز مدینہ میں ہوا۔
:جواب
علامہ زرقانی اس حدیث کی تفسیر میں فرماتے ہیں
اذن موذن، ای اعلم بطلب الصلاة، فاقيمت الصلوة اى تهيئولها وشرعوا فيها، فلايردان الاذان والاقامة انما شرعا بالمدينة والاسراء كان بمکہ
ترجمہ
ایک مؤذن نے اذان کہی اس کے یہ معنی ہیں کہ اس نے نماز کے لئے طلب کیے جانے پر ان کو آگاہ کیا، اور نماز کیلئے اقامت کہی گئی”
کا مفہوم یہ ہے کہ اس کیلئے تیار ہو گئے اور اس میں شروع ہو گئے، اس لئے یہ اعتراض نہیں پیدا ہوگا کہ اذان واقامت تو مدینہ میں شروع ہوئی تھیں اور معراج مکہ میں ہوئی تھی۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 61

مزید پڑھیں:معراج سے پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نماز کس طرح پڑھتے تھے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔
READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 519

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top