مسجد میں جماعت ثانیہ کے دوران اپنی الگ نماز ادا کرنا
:سوال
زید کی امامت سے جماعت ثانیہ مسجد بازار یا سرائے میں ہو رہی ہے اسی مسجد میں بکر بھی آیا اس کو معلوم ہو گیا کہ یہ جماعت ثانیہ ہے اس نے علیحدہ دتنہا جماعت کے قریب یا کسی قدر فاصلے سے اپنی نماز ادا کی تو نماز بکر کی ادا ہوگئی یا نہیں؟
:جواب
نماز بایں معنی تو ہوگئی کہ فرض سر سے اتر گیا مگر سخت کراہت ولزوم معصیت کے ساتھ کہ بے عذر شرعی ترک جماعت گناه و شناعت ہے نہ کہ خود بحال قیام جماعت صریح خلاف واضاعت ( ضائع کرنا )۔ یہاں تک کہ اگر کسی نے تنہا فرض شروع کر دیئے ہنوز ( ابھی تک ) جماعت قائم نہ تھی اس کے بعد قائم ہوئی اور اس نے بھی پہلی رکعت کا سجدہ نہ کیا تو اسے شرع مطہر مطلقاً حکم فرماتیہے کہ نیت تو ڑ دے اور جماعت میں شامل ہو جائے بلکہ مغرب وفجر میں تو جب تک دوسری رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو حکم ہے کہ نیت تو ڑکر مل جائے اور باقی تین نمازوں میں دو بھی پڑھ چکا ہوتو انہیں نفل ٹھہرا کر جب تک تیسری کا سجدہ نہ کیا ہو شر یک ہو جائے۔
جب پیش از جماعت تنہا شروع کرنے والے کو یہ حکم ہے حالانکہ اس نے ہرگز مخالفت جماعت نہ کی تھی اور نیت تو ڑنا بے ضرورت شرعیہ سخت حرام ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (لا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ)اپنے عمل باطل نہ کرو۔ مگر شرع مطہر نے جماعت حاصل کرنے کے لئے نیت توڑنے کو ابطال عمل ( عمل کو باطل کرنا) نہ سمجھا اکمال عمل ( عمل کو مکمل کرنا ) تصور فرمایا تو یہاں کہ جماعت قائمہ کے خلاف اپنی الگ پڑھتا ہے کیونکر شرع مطہر کو گوارا ہو سکتا ہے بلکہ جو شخص مسجد میں نماز تنہا پوری پڑھ چکا ہو اب جماعت قائم ہوئی ہے اگر ظہر یا عشا ہے تو شرعاً اس پر واجب ہے کہ جماعت میں شریک ہو کہ مخالفت جماعت کی تہمت سے بچے اور باقی تین نمازوں میں حکم ہے کہ مسجد سے باہر نکل جائے تا کہ مخالفت جماعت کی صورت نہ لازم آئے۔
مزید پڑھیں:صرف امام کا مصلی پر کھڑے ہو کر نماز پڑھانا کیسا؟
جب جماعت سے پہلے تنہا پڑھنے والا جماعت میں شریک نہ ہو تو متہم اور مخالف جماعت اور وزرعظیم ( بڑے گناہ) میں مبتلا پاتا ہے تو جو با وصف قیام جماعت قصداً مخالفت کر کے اپنی الگ شروع کر دے کیونکر سخت متہم و صریح مخالف و گرفتار گناه شدید نہ ٹھہرے گا بلکہ علماء فرماتے ہیں کہ قیام جماعت کی حالت میں اگر کچھ لوگ آکر دوسری جماعت جدا قائم کر دیں بتلائے کراہت ہوں گے کہ تفریق جماعت کی حالانکہ یہ نفس جماعت کے تارک نہ ہوئے نہ ان پر اصل جماعت سے مخالفت کی تہمت آسکتی ہے تو اکیلا اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ بنانے والا کس قدر شدید مخالف ہوگا۔
اور اس جماعت کا جماعت ثانیہ ہونا ان شناعتوں سے نہیں بچا سکتا اگر چہ جماعت ثانیہ کی مخالفت کا تہمت سے مطلقاً بری ہونا مان بھی لیا جائے کہ جب مسجد مسجد محلہ نہیں بازار یا سرا کی مسجد ہے تو اس کی ہر جماعت جماعت اولی ہے كما حققناه في فتاونا ( جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق اپنے فتاوی میں کی ہے )۔ ہاں اگر یہ امام قرآن عظیم ایسا غلط پڑھتا ہے جو مفسد نماز ہو یا اس کی بد مذہبی تا حد فساد ہے یا نقص طہارت وغیرہ کوئی اور وجہ فساد کی ہے تو الزام نہیں کہ ان صورتوں میں وہ جماعت خود جماعت ہی نہیں بلکہ اب اس میں شرکت ممتنع ہوگی۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 213

READ MORE  ختم دینے کی اصل کیا ہے؟ اور اسکا کیا حکم ہے؟
مزید پڑھیں:جماعت کو سنت مؤکدہ کہنا کیسا؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top