مرد کے بدن میں کتنے اعضاء ایسےہیں جن کو چھپانا ضروری ہے؟
:سوال
مرد کے بدن میں کتنے اعضاء ایسےہیں جن کو چھپانا ضروری ہے؟
:جواب
یہ تو معلوم ہے کہ مرد کے لیے ناف سے زانو تک عورت ہے ناف خارج، گھٹنے داخل، مگر جدا جدا عضاء بیان کرنے میں یہ نفع ہے کہ ان میں ہر عضو کی چوتھائی پر احکام جاری ہیں مثلا
(1)
اگر ایک عضو کی چہارم کھل گئی اگر چہ اس کے بلاقصد ہی کھلی ہو اور اس نے ایسی حالت میں رکوع یا سجود یا کوئی رکن کامل ادا کیا تو نماز بالاتفاق جاتی رہی ۔
 (2)
اگر صورت مذکورہ میں پورا ر کن تو ادا نہ کیا مگراتنی دیر گزرگئی جس میں تین بار سبحان اللہ کہ لیتا تو بھی مذہب مختار پر جاتی رہی۔
(3)
اگر نمازی نے بالقصد ایک عضو کی چہارم بلا ضرورت کھولی تو فورا نماز جاتی رہی اگر چہ معا چھپالے، یہاں ادائےرکن یا اس قدر دیر کی کچھ شرط نہیں ۔
 (4)
اگر تکبیر تحریمہ اسی حالت میں کہی کہ ایک عضو کی چہارم کھلی ہے تو نماز سرے سے منعقد ہی نہ ہوگی اگر چہ تین تسبیحوں کی دیر تک مکشوف نہ ر ہے۔
  (5)
ان سب صورتوں میں اگر ایک عضو کی چہارم سے کم ظاہر ہے تو نماز صحیح ہو جائے گی اگر چہ نیت سے سلام تک انکشاف رہے اگر چہ بعض صورتوں میں گناہ دسوئے ادب ( بے ادبی ) بیشک ہے۔
  (6)
اگر ایک عضودو جگہ سے کھلا ہو مگر جمع کرنے سے اس عضو کی چوتھائی نہیں ہوتی تو نماز ہو جائے گی اور چو تھائی ہوجائے تو بتفاصیل نے مزکورہ نہ ہوگی۔
مزید پڑھیں:قبر پر اذان دینے پر منکرین کا اعتراض
(7)
متعد د عضووں مثلا دو میں سے اگر کچھ کچھ حصہ کھلا ہے تو سب جسم مکشوف ( ظاہر ہونے والا جسم ) ملانے سے ان دونوں میں جو چھوٹا عضو ہے اگر اس کی چو تھائی تک نہ پہنچے تو نمار صحیح ہے ورنہ بتفصیل سابق باطل مثلا ران وزیر ناف سے کچھ کچھ کپڑا الگ ہے تو دونوں کی قدر منکشف اگر زیر ناف کی چہارم کو پہنچے نماز نہ ہوگی اگر چہ مجموعہ ران کی پوتھائی کو بھی نہ پہنچے کہ ان دونوں میں زیر ناف چھوٹا عضو ہے اور سرین اور زیر ناف میں انکشاف ہے تو مجموعہ سرین کے ربع تک پہنچنا چاہیے اگر چہ زیر ناف کی چوتھائی نہ ہو کہ ان میں سرین عضو اصغر ( چھوٹا عضو ) ہے اسی طرح تین یا چار یازیادہ اعضا میں انکشاف ہو تو بھی ان میں سب سے چھوٹے عضو کی چہارم تک پہنچنا کافی ہے اگر چہ اکبر یا اوسط یا خفیف حصہ ہو۔
 میں نے ان مسائل میں ہر جگہ اقوی ارجح ( زیادہ راجح ) واحوط (زیادہ مختار ) قول کو اختیار کیا کہ عمل کے لئے بس ہے۔ بالجملہ ان احکام سے معلوم ہو گیا کہ صرف اجمالا اس قدر سمجھ لینا کہ یہاں سے یہاں تک ستر عورت ہے ہرگز کافی نہیں بلکہ اعضاء کو جدا جدا پہچاننا ضروری ہے۔ اور وہ علا مہ حلبی و علامہ طحطاوی و علامہ شامی محشیان در مختاررحمۃ اللہ علیہم نے مرد میں آٹھ گنے
(1)
ذکر مع اپنے سب پرزوں یعنی حشفہ و قصبہ و قلفہ کے ایک عضو ہے یہاں تک کہ مثلا صرف قصبہ کی چوتھائی یا فقط حشفہ کا نصف کھلنا مفسد نماز نہیں، اگر باوجود علم وقدرت ہو تو گناوہ بے ادبی ہے اور ذکر کے گرد سے کوئی پارہ جسم اس میں شامل نہ کیا جائے گا، یہی صحیح ہے یہاں تک کہ صرف ذکر کی چوتھائی کھلنی مفسد نماز ہے۔
(2)
انثیین یعنی بیضے کہ دونوں مل کر ایک عضو ہے یہی حق ہے یہاں تک کہ ان میں ایک کی چہارم بلکہ تہائی کھلنی بھی مفسد نہیں ۔ ۔ پھر یہاں بھی صحیح یہی ہے کہ ان کے ساتھ ان کے حول (اردگرد ) سے کچھ ضم (ملایا) نہ کیا جائے گا، یہ دونوں تنہا عضومستقل ہیں ۔
(3)
دبر یعنی پاخانہ کی جگہ، اس سے بھی صرف اس کا حلقہ مراد، یہی صحیح ہے اور اس پر اعتماد
 (4,5)
الیتین یعنی دونوں چوتڑ ( سرین)، ہر چوتڑ مذاہب صبح میں جدا عورت ہے کہ ایک کی چوتھائی کھلنی باعث فسادہے
(6,7)
فخذین یعنی دونوں را نیں کہ ہر ران اپنی جڑ سے جسے عربی میں رکب و رفع ومغین اور فارسی میں پیغولہ ران اور اردو میں چڈھا کہتے ہیں، گھٹنے کے نیچے تک ایک عضو ہے، ہر گھٹنا اپنی ران کا تابع اور اس کے ساتھ مل کر ایک عورت ہے، یہاں تک کہ اگر صرف گھنٹے پورے کھلے ہوں تو صحیح مذہب پر نماز صحیح ہے کہ دونوں مل کر ایک ران کے ربع کو نہیں پہنچتے ، ہاں خلاف ادب و کراہت ہونا جدا بات ہے۔
(8)
کمر باندھنے کی جگہ ناف سے اور اس کی سیدھ میں آگے پیچھے دہنے با ئیں چاروں طرف پیٹ کمر کولہوں کا جو ٹکڑا باقی رہتا ہے وہ سب مل کر ایک عورت ہے۔
اقول وباللہ التوفیق ( میں اللہ کی توفیق سے کہتا ہوں ) یہاں دو مقام تحقیق طلب ہیں
مزید پڑھیں:قبر پر اذان دینے میں کتنے فائدے ہیں؟
:مقام اول
آیا عورت ہشتم ( آٹھویں عضو ستر ) میں پیٹ کا وہی نرم حصہ جو ناف کے نیچے واقع ہے جسے ہندی میں پیڑوکہتے ہیں تینوں طرف یعنی کروٹوں اور پیٹھ سے اپنے محاذی بدن کے ساتھ صرف اسی قدر داخل ہے ذکر کے متصل دو سخت بدن جو بال اُگنے کا مقام ہے جسے عربی میں عانہ کہتے ہیں اس میں شامل نہیں یہاں تک کہ صرف مقدار اول کی چوتھائی کھلنی مفسد نماز نہ ہو اگر چہ عانہ کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو چہارم سے کم رہے یا عا نہ سمیت ناف سے نیچے جس قدر جسم رانوں اور ذکر اور چوتڑوں کے شروع تک باقی رہا سب مل کر ایک عورت ہے۔ یہاں تک کہ افساد نماز کے لئے اس مجموع کی چوتھائی درکار ہو اور مقدار اول کا ربع کفایت نہ کرے۔
جتنی کتب فقہ اس وقت فقیر کے پیش نظر ہیں ان میں کہیں اس تنقیح کی طرف توجہ خاص نہ پائی اور بنظر ظاہر کلمات علما مختلف سے نظر آتے ہیں مگر بعد غور و تعمق اظہر واشبہ امر ثانی ہے یعنی یہ سب بدن مل کر ایک ہی عورت ہے تو یوں سمجھئے کہ چار اطراف بدن میں اس سے ملے ہوئے جو عضو ہیں مثلاً ران وسرین و ذکر ، ان کا آغاز تو معلوم ہی ہے ان سے اوپر اوپر ناف کے کنارہ زیریں اور سارے دور میں اس کنارے کی سیدھ تک جسم باقی رہا اس سب کا مجموعہ عضو واحد ہے۔ اور اسی طرف علامہ حلبی و علامہ طحطاوی و علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی کا کلام مذکور ناظر کہ انہوں نے عانہ عضو جدا گانہ نہ ٹھہرایا۔
ورنہ تقدیر اول پر اس قدر ٹکڑا اس میں داخل نہ تھا اور اس کا ران و ذکر میں داخل نہ ہونا خود ظاہر ، تو واجب تھا کہ اس پارہ جسم یعنی عانہ کو نواں عضو شمار فرماتے ، اس مقام کی تحقیق کامل بقدر قدرت فقیر غفراللہ تعالی نے اپنے رسالہ مذکوره” الطرة في ستر العورة میں ذکر کی یہاں ان شاء اللہ تعالی اسی قدر کافی کہ عانہ اور عانہ سے اوپر ناف تک سارا جسم جسم واحد ہے حقیقتہ و حسا وحکماسب طرح متصل، تو اسے دو عضو مستقل ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں۔
:مقام دوم
وہ بدن جود بروانثیین کے درمیان ہے اس گتنی میں نہ آیا ، نہ اسے عورت ہشتم کے توابع سے قرار دے سکتے ہیں کہ بیچ میں دو مستقل عورتیں یعنی ذکر انثیین فاضل ہیں۔۔۔ نہ یہ صحیح کہ اسے دو حصے کر کے دبرواثنیین میں شامل مانیے کہ مذہب صحیح پر تنہا انثیین عضو کامل ہیں یونہی صرف حلقہ دبر عضو مستقل ہے کہ ان کے گرد سے کوئی جسم ان کے ساتھ نہ ملایا جائے گا۔
جب ثابت ہولیا کہ یہ جسم یعنی ما بین الدبروالا نثیین (دبر اور انثیین کے درمیان موجود حصہ ) ان آنھوں عورتوں سے کسی میں شامل اور کسی کا تابع نہیں ہوسکتا اوروہ بھی قطعاً ستر عورت میں داخل تو واجب کہ اسے عضو جدا گانہ شمار کیا جائے مرد میں عدداعضا ۓ عورت نو قرار دیا جائے اور کتب مذکورہ میں اس کا عدم ذکر ذکرعدم نہیں کہ آخران میں نہ استیعاب (احاطہ کرنے ) کی طرف ایماء (اشارہ) نہ کسی تعداد کا ذکر ، وہ ستر عورت کی دونوں حدیں ذکر فرما چکے اور اتنے اعضا کے استقلال وانفراد پر بھی تصریحیں کر گئے تو جو باقی رہالا جرم عضو مستقل قرار پائے گا۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 29 تا 38

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 04, Fatwa 241
مزید پڑھیں:قضاء نماز میں دن کی تعیین نہ کرنا کیسا؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top