میت کے نماز و روزہ وغیرہ کے کفارے کے عوض میں قرآن شریف کو حیلہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
:سوال
میت کے نماز و روزہ وغیرہ کے کفارے کے عوض میں قرآن شریف کو حیلہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
:جواب
یہ حیلہ دو طور پر ہے
:اول
یہ کہ نماز روزے وغیرہ جس قدر ذمہ میت ہوں سب کے کفارے میں خود قرآن مجید ہی مسکین کو دے دیا جائے یعنی مصحف مبارک ہی کو ان فرائض کا معاوضہ و کفارہ بنا لیا جائے ، یہاں جہاں اسی طرح کرتے ہیں اُن کا خیال ہے کہ قرآن ہے بہا چیز ہے اُس کی قیمت کا کون اندازہ کر سکتا ہے تو اگر لاکھوں کفارے ہوں ایک مصحف میں سب ادا ہو جائیں گے، ولہذا انہیں میت کی عمر اور اس کی قضاء نمازوں روزوں کا حساب کرنے کی بھی حاجت نہیں ہوتی کہ حساب تو جب کیجئے کہ کچھ کمی کا احتمال ہو اور جہاں ہر طرح یقینا زیادہ ہی چیز جارہی ہے وہاں حساب کس لئے۔
یہ طریقہ یقینا قطعا باطل و مہمل ہے شرع مظہر نے کفارے میں مال معین فرمایا ہے کہ ہر نماز ہر روزے کے عوض نیم ( آدھا ) صاع گندم یا ایک صاع کو یا ان کی قیمت ۔ اور اس سے مقصود شرع ادھر نفع رسانی مساکین ہے اُدھر اپنی رحمت کاملہ سے ترک فرائض پر مال جرمانہ لے کر ان شاء اللہ بندہ تارک کو مطالبہ سے سبکدوش فرمانا، ولہذا ہر نماز روزہ کے ایک مقدار مال معین فرمائی کہ جرم کم و زائد میں امتیاز رہے، جس نے تھوڑے چھوڑے ہیں تھوڑا مال دے کر پاک ہو جائے ، جس نے زیادہ چھوڑے اس پر اسی حساب سے جرمانہ بڑھتا جائے۔
مصحف شریف میں دو لحاظ ہیں : ایک کاغذ و سیاہی والد کا اعتبار، اس لحاظ سے وہ ایک مال ہے اس لحاظ سے اس کی بیع و شرا ہوتی ہے، بایں معنی اس کی قیمت وہی ہے جتنے پر بازار میں ہدیہ ہو ، روپیہ دو روپیہ یا دس پندرہ جو حیثیت ہو اسی لحاظ سے وہ کفارے میں دیا جاسکتا ہے تو ہو، دو بازار کے بھاؤ سے جتنے داموں پر ہدیہ ہو اسی قدر مال دینا ٹھہرے گا، اور کفارہ ادا ہوا تو صرف اتنے ہی نماز روزوں کا ادا ہو گا جو ان داموں کے مقابل ہوں مثلا روپے کے پانچ صاع گیہوں آتے ہیں اور یہ مصحف شریف کر دیا گیا دو روپے ہدیہ کا تھا تو گویا دس صاع گیہوں دئے گئے صرف ہیں نمازوں یا میں روزوں کا عوض ہوئے ، دو چار روپے مالیت کی چیز سے عمر بھر کی نمازوں کا کفارہ کیونکر ادا ہو سکتا ہے۔
دوسر الحاظ اس کلام کریم کا اعتبار ہے جو اُس میں لکھا ہے اصلا مال نہیں بلکہ وہ اس احمد صمد جل و علا کی صفت قدیمہ کریمہ اُس کی ذات پاک سے قائم اور اُس کے کرم سے ہمارے ورقوں ، ہمارے سینوں، ہماری زبانوں، ہماری آنکھوں، ہمارے کانوں، ہمارے دلوں پر کتابت و حفظ و تلاوت و نظر و سماعت و فہم میں تجلی ہے۔
عوام نے سچ کہا کہ وہ بے بہا ہے اور غلط سمجھا کہ اس کہ قیمت حد سے سوا ہے بلکہ وہ بے بہا بایں معنی ہے کہ تقویم و مالیت سے پاک دورا ہے بایں معنی وہ کفارہ نہیں ہو سکتا کہ کفارہ مال سے ہوتا ہے اور وہ مال نہیں۔
:دوسرا طریقہ
یہ کہ میت پر جس قدر نماز روزے وغیر ہا قضا ہوں سب کا حساب لگا ئیں اور اس کا کفارہ معین کریں کہ مثلاً ہزار من گندم ہوئے، مصحف شریف اُتنے گیہوں ( گندم) یا اُن کی قیمت کے عوض مسکین کے ہاتھ بیچ کریں وہ قبول کرلے مصحف تو اس نے پایا اور اس پر ہزار من گندم یا مثلا تین ہزار روپے شمن مصحف کے دین ہو گئے ، اب اس سے کہیں کہ اتنے گیہوں یا روپے جو ہمارے تجھ پر واجب الادا ہیں وہ ہم نے فلاں میت کے کفارہ میں تجھے دئے ، فقیر کہے میں نے قبول کئے ۔ یہ حیلہ قرآن عظیم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر کتاب یا کپڑے یا برتن و امثالہا سے ہو سکتا ہے، دہلی کے متاخرین علماء نے یہ حیلہ لکھا مگر نظر فقہی میں یہ بھی صحیح نہیں آتا کہ کفارے میں مال دینا چاہئے اور دین کہ ساقط کر دیا مال نہیں۔ بلکہ ضرور ہے کہ وہ دین اس سے وصول کر کے قبضہ میں لاکر کفارے میں دیں۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 513 تا 516

READ MORE  ایصال ثواب پر بلا تعین قاری کو کچھ دے دینا کیسا؟
مزید پڑھیں:روزہ دار دانتوں میں خلال کر سکتا ہے یا نہیں؟ اور منجن ملنا چاہئے یا نہیں؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top