:سوال
مدرسہ میں زکوۃ کا مال لگانا کیسا ہے؟
:جواب
زکوة کارکن تملیک فقیر ہے جس کام میں فقیر کی تملیک نہ ہو کیسا ہی کا رحسن ہو جیسے تعمیر مسجد یا تکفین میت یا تنخواه مدرسان علم دین، اس سے زکوۃ نہیں ادا ہو سکتی ۔ :مدرسہ علم دین میں دینا چاہیں تو اس کے تین حیلے ہیں
ايك يہ متولی مدرسہ کو مال زکوۃ دے اور اُسے مطلع کر دے کہ یہ مال زکوة کا ہے۔ اسے خاص مصارف زکوۃ میں صرف کرنا ، متولی اس مال کو جدا رکھے اور مال میں نہ ملائے اور اس سے غریب طلبہ کے کپڑے بنائے ، کتابیں خرید کر دے یا اُن کے وظیفہ میں دے جو محض بنظر امداد ہو، نہ کسی کام کی اُجرت ۔
دوسرے یہ کہ زکوۃ دینے والا کسی فقیر مصرف زکوۃ کو بہ بیت زکوۃ دے اور وہ فقیر اپنی طرف سے کل یا بعض مدرسہ کی نذر کر دے۔
تیسرے یہ کہ مثلاً سو روپے زکوۃ کے دینے ہیں اور چاہتا ہے کہ مدرسہ علم دین کی ان سے مدد کرے تو مثلاً سیر گیہوں کسی محتاج مصرف زکوٰۃ کے ہاتھ سو روپے کو بیچے اور اسے مطلع کر دے کہ یہ قیمت ادا کرنے کو تمھیں ہم ہی دیں گے تم پر اس کا بار نہ پڑے گا، وہ قبول کر لے اس کے بعد سو روپیہ بہ بیت زکوۃ اس کو دے کر قابض کر دے اس کے بعد اپنے گیہوں کی قیمت میں وہ روپے اس سے لے لے، اگر وہ نہ دینا چاہے تو یہ خود اس سے لے سکتا ہے کہ یہ اس کا عین حق ہے، اب یہ روپے مدرسہ میں دے، ان پچھلی دونوں صورتوں میں یہ روپیہ تنخواہ مدرسین وغیرہ ہر کار مدرسہ میں صرف ہو سکتا ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 269