کیا نماز کے بعد دعا کرنا بدعت ہے؟
:سوال
بعض غیر مقلدین کہتے ہیں کہ نماز کے بعد دعا کرنا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت نہیں، یہ بدعت ہے۔
:جواب
اللہ تعالی فرماتا ہے
فَإِذَا فَرَغْتُ فَانْصَبُ وَ إِلَى رَبِّكَ فَارْغَبُ)
جب تم نماز سے فارغ ہو تودعا میں محنت کرو اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کرو۔
اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں راجح قول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد حضرت عبداللہ بن عبا س رضی اللہ تعالیٰ علیہ عنہما کا ہے کہ جب تم نماز سے فارغ ہو جاؤ تو دعا میں خوب محنت کرو اور بارگاہ خداوندی میں آہ وزاری کے ساتھ رغبت کرو تفسیر الجلالین میں ہے
فاذا فرغت من الصلوة فانصب اتعب في الدعاء والى ربك فارغب
ترجمہ: جب تم نماز سے فارغ ہو تو دعا میں کوشش کرو اور اپنے رب کی طرف آہ وزاری کرو۔
مزید پڑھیں:فرض نماز میں بعد سلام امام کا قبلہ رو بیٹھے رہنا کیسا؟
علامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں
هو الصحيح فقد اقتصر عليه الجلال وقد التزم الاقتصار على ارجح الأقوال
ترجمہ: یہی صحیح ہے کیونکہ اس پر جلال الدین نے اقتصار کیا اور انہوں نے مختار وراجح قول کے ذکر کا التزام کر رکھا ہے
اس کے بعد امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے دس احادیث نقل فرمائیں، ان میں کچھ درج ذیل ہیں
:حديث
كان رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم اذا انصرف من صلاته استغفر ثلاثا وقال اللهم انت السلام تباركت يا ذا الجلال ولا كرام
ترجمہ: جب حضور سید المرسلين صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین نماز سے رخ انور پھیرتے ( سلام کہتے ) تو تین دفعہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور یہ دعا کرتے اللهم انت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الحلال والاكرام اے اللہ تو سلام ہے (یعنی تیری ذات جل مجدہ کی طرف کوئی عیب یا نقص راہ نہیں پاسکتا) اور تیری طرف سے سلام ( کہ ہم بندوں کی تمام مصیبتوں اور بلیات سے سلامتی تیری قدرت ، ارادے مہربانی اور کرم سے ہے ) برکت و عظمت تیرے ہی لئے ہے اے صاحب بزرگی اور بزرگی عطا فرمانے والے یا رب ۔
کیا یہ حدیث صحاح میں مشہور و متداول نہیں یا مغفرت کی طلب اور سلامتی کا سوال دعا نہیں ہوتا ۔ جہالت ایسی مرض ہے کہ اس کا علاج آسان نہیں اور جب یہ مرکب ہوجائے تو اسکا کوئی علاج نہیں والعیاذ بالله تبارك و تعالی۔
مزید پڑھیں:دعا سے پہلے اور بعد میں کلمہ پڑھنا کیسا؟
حدیث : براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں
كنا اذا صلينا خلف رسول الله صلى اللہ تعالیٰ عليه وسلم ، احببنا ان نكون عن يمينه يقبل علينا بوجهه قال فسمعته يقول رب قني عذابك يوم تبعث او تجمع عبادك
ترجمہ: جب ہم نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہمیں آپ کے دائیں طرف کھڑا ہونا زیادہ محبوب ہوتا تھا تا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سلام کے بعد چہرہ انور ہماری طرف پھیریں، کہا پسں میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو یہ کلمات کہتے سنا رب قنی عذابک یوم تبعث او تجمع عبادک (اے میرے رب مجھے اپنے اس دن کے عذاب سے محفوظ فرما جس دن تو اپنے تمام بندوں کو اٹھائے گا یا جمع کرے گا)
اور طرفہ تر یہ کہ ان عقلمندوں کو اپنے امام وقت اپنے دور اور زمانے کے مجتہد کی خبر تک نہیں چہ جائیکہ یہ احادیث اور دلائل سے آگاہ ہو سکیں مولوی عبدالحئ لکھنوی نے صرف ثبوت دعا ہی نہیں بلکہ نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنے پر فتوی جاری کیا ان کے امام میاں نذیر حسین دہلوی (جس کے قول پر غیر مقلدین ایمان رکھتے ہیں حالانکہ و دین الہی کے ائمہ کو کسی شمار میں نہیں لاتا فقہ اور فقہا کو گالیاں دیتا ہے ) اس نے فتوی میں مجیب لکھنوی کی حدیث لا کر لکھنوی کی تائید و تصدیق کی ہے دوسری حدیث کا اس نے خود اضافہ کیا ہے، وہ فتوی یہ ہے کہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ نماز کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا جس کا اس علاقے کے ائمہ میں معمول ہے کیسا ہے ؟ اگر چہ فقہا نے اسے مستحسن لکھا اور مطلق ہاتھ اٹھانے اور دعا میں روایات موجود ہیں کیا اس عمل خاص ( ہاتھ اٹھانے ) پر بھی کوئی حدیث ہے؟ جواب عنایت کرو اجر پاؤ گے۔
مزید پڑھیں:سلام کے بعد پھرنے کا حکم مقتدی کے لیے نہیں
خاص اس بارے میں بھی حدیث موجود ہے ۔ حافظ ابو بکر احمد بن محمد بن اسحق ابن السنی نے اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں لکھا ہے
عن انس عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، أنه قال ما من عبد بسط كفيه في دبر كل صلوة ثم يقول اللهم الهى واله ابراهیم و اسحق و يعقوب واله جبرئيل وميكائيل و اسرافيل عليهم السلام اسئلك ان تستجيب دعوتي فاني مضطر ، وتعصمني في ديني فانی مبتلی و تعنالى برحمتك فانی مذنب، وتتقى عن الفقر، فأني متمسكن الاكان حقا على الله عز وجل ان لا يرديديه غائبتين
ترجمہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے بھی ہر نماز کے بعد دعا کیلئے ہاتھ پھیلائے اور عرض کیا اے اللہ میرے معبود ! اے ابراہیم اسحق اور یعقوب کے معبود! اے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل (علیہم السلام) کے معبود! میری عرض ہے کہ میری دعا قبول فرما کہ پریشان ہوں میری دین میں حفاظت فرما میں ابتلاء میں ہوں مجھے اپنی رحمت سے نواز میں گنہگار ہوں مجھ سے میرے فقر کو دور فرما میں مسکین ہوں تو اللہ تعالی نے اپنے ذمہ کرم لیا ہے کہ اسکے ہاتھ خالی نہیں لوٹا ئیگا
(اس فتوی کو نقل کرنے کے بعد میاں نذیر حسین غیر مقلد کہتا ہے ) یہ جواب صحیح ہے اور اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جسے ابو بکر بن ابی شیبہ نے مصنف میں اسود عامری سے اور انہوں نے اپنے والد گرامی رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا کہ صليت مع رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم الفجر فلما سلم الصرف ورفع یدیہ و دعا میں نے نبی اکرم صلیٰ اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی جب آپ نے سلام کہا، زخ انور پھیرا، ہاتھ اٹھائے اور دعا کی۔
اس حدیث کے متعلق ان کا امام کہتا ہے کہ اس سے فرض نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اُٹھانا خود سید الانبیاء اسود الاالانبیا صلیااللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسا کہ علماء اذ کیا پر مخفی نہیں

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 224 تا 232

READ MORE  عیدین کے بعد دعا مانگنے کا کیا حکم ہے؟
مزید پڑھیں:ایک شخص وظیفہ پڑھتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا اسکا حکم؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top