کتب موضوع احادیث میں مطلق مذکور حدیث کا مفہوم
:سوال
موضوع احادیث کے بارے میں لکھی گئی کتب میں کسی حدیث کے مطلق ذکر ھے کیا وہ حدیث موضوع سمجھی جائے گی ؟
:جواب
کتب موضوعات میں کسی حدیث کا ذکر مطلقاً ضعف کو ہی مستلزم نہیں ( چہ جائیکہ اس کے موضوع ہونے کو مستلزم ہو)
اقوال کتا بیں کہ بیان احادیث موضوعہ میں تالیف ہوئیں دو قسم ہیں
ایک دو جن کے مصنفین نے خاص ایراد موضوعات  ( موضوع احادیث کو وارد کرنے ) ہی التزام کیا جیسے موضوعات این الجوزی واباطیل موضوعات صغانی ان کتابوں میں کسی حدیث کا ذکر بلا شبہہ یہی بتائے گا کہ اس مصنف کے نزدیک موضوع ہے جب تک صراحتہ نفی موضوعیت نہ کر دی ہو ایسی ہی کتابوں کی نسبت یہ خیال بجا ہے کہ موضوع نہ سمجھتے تو کتاب موضوعات میں کیوں ذکر کرتے۔
پھر اس سے بھی صرف اتنا ہی ثابت ہوگا کہ زعم مصنف میں موضوع ہے بہ نظر واقع عدم صحت بھی ثابت نہ ہو گا نہ کہ ضعیف نہ کہ سقوطِ نہ کہ بطلان ان سب کتب میں احادیث ضعیفه در کنار بہت احادیث حسان اصحاح وصحاح بھر دی ہیں اور محض بے دلیل ان پر حکم وضع لگایا ہے ہے ائمہ محققین و نقاد منقحین نے بدائل قاہرہ و باطل کر دیا جس کا بیان مقدمہ ابن الصلاح و تقریب امام نو وی والفیہ امام عراقی وفتح المغیث امام سخاوی و غیر ہا تصانیف علما سے اجمالا اور تدریب امام خاتم الحفاظ سے قدرے مفصلا ( جانا جاسکتا ہے)۔
مزید پڑھیں:اولاد پر خرچ کرنا، خیرات کرنا اور مستقبل کے لیے رکھنا کیسا؟
مطالعہ تدریب سے ظاہر کہ ابن الجوزی نے اور تصانیف در کنار خود صحاح ستہ ومسند امام احمد کی چوراسی حدیثوں کو موضوع کہہ دیا جن کی تفصیل یہ ہے۔ مسند امام احمد (۳۸) صحیح بخاری شریف بروایت حماد بن شاکر (۱) صحیح مسلم شریف (۳)،سنن ابی داؤد 4,جامع ترمزی(۵) سنن نسائی (۲) سنن ابن ماجه (۱۲) ۔
دوم وہ جن کا قصد صرف ایراد موضوعات واقعیہ نہیں بلکہ دوسروں کے حکم وضع کی تحقیق و تنقیح جیسے لالی امام سیوطی یا نظر و تنقید کے لئے اُن احادیث کا جمع کر دینا جن پر کسی نے حکم وضع کیا جیسے انہیں کا ذیل اللآلی امام ممدوح خطبہ میں فرماتے ہیں اس الحوزي أكثر من اخراج الضعيف بل والحسن بل والصحيح كمانيه على ذلك الأئمة الحفاظ وطال ما اختلج في ضميري انتقاؤه و انتقاده فاورد الحديث ثم اعقب بكلامه ثم انكان متعقبا بنھت علیہ ابن جوزی نے کتاب موضوعات میں بہت ضعیف بلکہ حسن بلا صحیح حدیثیں روایت کر دی ہیں کہ ائمہ حفاظ نے اس پر تنبیہ فرمائی مدت سے میرے دل میں تھا کہ اس کا خلاصہ کروں اور اس کا حکم پرکھوں تو اب میں حدیث ذکر کر کے ابن جوزی کا کلام نقل کروں گا پھر اس پر جواعتراض ہوگا بتاؤں گا۔
مزید پڑھیں:نمازی کے سامنے دیوار قبلہ پر لکھائی کا ہونا کیسا؟
پر ظاہر کہ ایسی تصانیف میں حدیث کا ہونا مصنف کے نزدیک بھی اس کی موضوعیت نہ بتائے گا کہ اصل کتاب کا موضوع(عنوان) ہی تنہا ایراد موضوع نہیں بلکہ اگر کچھ حکم دیا یا سند متن پر کلام کیا ہے تو اسے دیکھا جائے گا کہ صحت یا حسن یا ثبوت صلوح یا ضعف یا سقط یا بطلان کیا نکلتا ہے۔
مثلا “لا يصح ” ( یہ صحیح نہیں ) يا لم بنت ” ( یہ ثابت نہیں ) یا سند پر جہالت یا انقطاع سے طعن کیا تو غایت درجہ ضعف معلوم ہوا، اور اگر ” رفعہ کی قید زائد کر دی تو صرف مرفوع کا ضعف اور بنظر مفہوم موقوف کا ثبوت مفہوم ہوا، وعلی ہذا القیاس اور کچھ کلام نہ کیا تو ام محتاج نظر و نتیج رہے گا۔
شوکانی کی کتاب موضوعات مسمی به فوائد مجموعہ بھی اسی قسم ثانی کے ہے خود اُس نے خطبہ کتاب میں اس معنی کی تصریح کی کہ میں اس کتاب میں وہ حدیثیں بھی ذکر کروں گا جنہیں موضوع کہنا ہر گز صیح نہیں بلکہ ضعیف ہیں بلکہ ضعف بھی خفیف ہے بلکہ اصلا ضعف نہیں حسن یا صحیح ہیں کہ اہلِ تشدد کے کلام پر تنبیہ اور اُس کے رو کی طرف اشارہ ہو جائے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 548

READ MORE  ضمیر جمع متکلم کے الف کا حکم
مزید پڑھیں:کیا فضائل اعمال میں ہر قسم کی ضعیف حدیث مقبول ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top