:سوال
زید ایک قصبہ میں نسلاً بعد نسل مسند امامت جمعہ پر اتفاق جماعت مسلمانان سے مامور ہے اور امامت و خطابت اور نماز عیدین بلکہ تمام کاروبار متعلقہ عہدہ قضا کرتا ہے، اب ہندہ ایک عورت نے حاکم کے ساتھ مل کر زید کو ہٹا کر اپنے کسی رشتہ دار کو مقرر کر دیا ہے، کیا اس کی امامت جمعہ درست ہے؟
:جواب
عورت کہ سلطنت نہ رکھتی ہو اور اسی طرح سلطانِ اسلام یا اس کے نائب ماذون کے سوا کسی حاکم کا کسی شخص کو خطیب یا امام جمعہ مقرر کرنا اصلا معتبر نہیں، نہ ایسے شخص کے خطبہ پڑھتے یا نماز پڑھانے سے جمعہ ادا ہو سکے کہ اس میں اذنِ سلطان اسلام شرط ہے جسے اس نے مقرر کیا یا اس کے مقرر کئے ہوئے نے اذن دیا وہی خطیب و امام ہو سکتا ہے دوسرا نہیں۔ پس اگر آباء واجداد زید سلطنت اسلام سے اس عہدہ پر از جانب سلاطین اسلام مقرر تھے اور وہ خطباء وائمہ یکے بعد دیگرے اپنی اولاد میں ایک دوسرے کو نائب کرتے آئے یہاں تک کہ یہ نیابت زید تک پہنچی تو زید خود سلاطین اسلام کی طرف سے اس عہدہ پر مامور گنا جائے گا اور اس کے ہوتے ہوئے اگر تمام اہل شہر بے اس کے اذن کے دوسرے کو امام یا خطیب مقرر کرنا چاہیں گے ہرگز جائز نہ ہوگا نہ بغیر اس کی اجازت کے کسی کی خطبہ خوانی یا امامت صحیح ہوگی ۔
مزید پڑھیں:وہابیوں کا خطبہ جمعہ اور نماز کا حکم
اگر ایسا نہیں یعنی اس کے اجداد جانب سلاطین اسلام سے مامور نہ تھے یا اس کو انھوں نے نائب نہ کیا تاہم جبکہ یہ خود با تفاق مسلمین امامت و خطابت پر مامور ہے تو ہمارے اعصار و امصار میں بلا ریب امام و خطیب صحیح شرعی ہے کہ جہاں سلطان نہ ہو اس امر کا اختیار عامہ مسلمین کے ہاتھ ہوتا ہے وہ جسے مقرر کر دیں اس کا تقر ٹھیک ہے۔ تو اس صورت میں بھی دوسرا کوئی شخص بغیر اذن زید کے امامت و خطابت کا مجاز نہیں کہ آخر یہ خطیب شرعی ہے اور خطیب شرعی کے بے اجازت دوسرا امامت یا خطابت نہیں کر سکتا ۔ ہاں اس صورت میں اگر عامہ مسلمین جیسے آج تک تقر رزید پر متفق رہے اب بوجہ شرعی معزولی زید پر متفق ہو جائیں اور دوسرے شخص کو قائم کر دیں تو اس صورت زید معزول اور دوسرے کا تعین صحیح و مقبول ہو گا صرف عورت کی جاہلانہ حرکت یا حاکم سلطنت غیر اسلامی کی شرکت واعانت محض بیکا رو بے سود ہے کہ کسی منصب سے معزول کرنے کا اسی کو اختیار ہوتا ہے جسے مقرر کرنے کا اختیار تھا وہ اصالۃ سلطانِ اسلام ہے اور ضرورۃجماعات مسلمین نہ کہ عورت یا حکام سلطنت غیر اسلام، كما لا يخفى على من له بالفقه ادنی الالمام ، ترجمہ: جیسا کہ یہ ہر اس شخص پر واضح ہو جو فقہ میں ادنی سامس رکھتا ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 469