کس درجہ کی بات کس طرح کی حدیث سے ثابت ہوتی ہے؟
:سوال
کس درجہ کی بات کس طرح کی حدیث سے ثابت ہوتی ہے؟
:جواب
جن باتوں کا ثبوت حدیث سے پایا جائے وہ سب ایک پالہ کی نہیں ہو تیں بعض تو اس اعلیٰ درجہ قوت پر ہوتی ہیں کہ جب تک حدیث مشہور متواتر نہ ہو اس کا ثبوت نہیں دے سکتے، احاد ( وہ احادیث جو خبر واحد ہوں ) اگر چہ کیسے ہی قوت سندہ نہایت صحت پر ہوں ان کے معاملہ میں کام نہیں دیتیں۔
عقائد میں حدیث احاد اگر چہ صحیح ہو کافی نہیں، یہ اصول عقائد اسلامیہ ہیں جن میں خاص یقین در کار علامہ تفتازانی رحمہ اللّٰہ تعالیٰ شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں
خبر الواحد على تقدیر اشتماله على جميع الشرائط المذكورة في أصول الفقه لا یفید إلا الظن ولا عبرة بالظن في باب الاعتقادات ”
حدیث احاد اگر چہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے اور معاملہ اعتقاد میں تنیات کا کچھ اعتبار نہیں ۔
مولا نا علی قاری منح الروض الازہر میں فرماتے ہيں
الاحاد لا تفيد الاعتماد في الاعتقاد ،
(احادیث احاد اعتقادنا قابل اعتماد )
دوسرا درجہ احکام کا ہے کہ ان کے لئے اگر چہ اتنی قوت درکار نہیں ، پھر بھی حدیث کا صحیح لذاتہ خواہ اخیرہ یا حسن لذاتہ یا کم سے کم لغیرہ ہونا چاہئے ، جمہور یہاں ضعیف حدیث نہیں سنتے ۔
تیسرا مرتبہ فضائل و مناقب کا ہے یہاں باتفاق علماء ضعیف حدیث بھی کافی ہے مثلا کسی حدیث میں ایک عمل کی ترغیب آئی کہ جو ایسا کرے گا اتنا ثواب پائے گا یاکسی نبی یا صحابی کی خوبی بیان ہوئی کہ انہیں اللہ عزوجل نے یہ مرتبہ بخشا، یہ فضل عطا کیا، تو ان کے مان لینے کوضعیف حدیث بھی بہت ہے، ایسی جگہ صحت حدیث میں کلام کر کے اسے پایہ قبول سے ساقط کرنا فرق مراتب نہ جاننے سے ناشی ( یہ چیز فرق مراتب نہ جانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ) ، جیسے بعض جاہل بول اٹھتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں، یہ ان کی نادانی ہے علمائے محدثین اپنی اصطلاح پر کلام فرماتے ہیں،
یہ بے سمجھے خدا جانے کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں، عزیز و( دوستو ) مسلم (مانا) کہ صحت نہیں پھر حسن کیا کم ہے، حسن بھی نہ سہی یہاں ضعیف بھی مستحکم ( مضبوط ) ہے۔
امام ابوزکریا نوری اربعین پھر امام ابن حجر کی شرح مشکوۃ پھر مولا نا علی قاری مرقاۃ میں فرماتے ہیں
” قد اتفق الحفاظ ولفظ الاربعين قد اتفق العلماء على جواز العمل بالحديث الضعيف في فصائل الاعمال ولفظ الحرز لجواز العمل به في فضائل الاعمال بالاتفاقی “
یعنی بینک حفاظ حدیث و علمائے دین کا اتفاق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے۔
امام محقق على الاطلاق فتح القدیر میں فرماتے ہیں
” الصعيف غير الموضوع يعمل به في فضائل الاعمال “
یعنی فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے گا بس اتنا چاہئے کہ موضوع نہ ہو۔
کبرائے وہابیہ بھی اس مسئلہ میں اہل حق سے موافق ہیں ، مولوی خرم علی رسالہ دعائیہ میں لکھتے ہیں
ضعاف در فصائل اعمال وفيما نحن فيه باتفاق علما معمول بها است الخ “
فضائل اعمال میں اور جس میں ہم گفتگو کر رہے ہیں اس میں باتفاق علما ضعیف حدیثوں پر عمل درست ہے۔
اسی میں حدیث فضیلت شب برات کی تضعیف امام بخاری سے نقل کر کے کہا یہ حدیث اگر چہ ضعیف ہے لیکن عمل کرنا حدیث ضعیف پر فضائل اعمال میں باتفاق جائز ہے

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 477

READ MORE  ایک سورت چھوڑ کر پڑھنا کیسا ہے؟
مزید پڑھیں:کیا اہل علم کے عمل سے بھی حدیث ضعیف قوی ہو جاتی ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top