کیا اہل علم کے عمل سے بھی حدیث ضعیف قوی ہو جاتی ہے؟
سوال
کیا اہل علم کے عمل سے بھی حدیث ضعیف قوی ہو جاتی ہے؟
جواب
اہل علم کے عمل کر لینے سے بھی حدیث قوت پاتی ہے اگر چہ سند ضعیف ہو۔
مرقاۃ میں ہے
رواہ الترمذی وقال هذا حديث غريب والعمل على هذا عند اهل العلم، قال النووى و اسناده ضعيف نقله مبرك، فكان الترمذى يريد تقوية الحديث بعمل أهل العلم والعلم عبد الله تعالى كما قال الشيخ محي الدين ابن العربي انه بلغني عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم، أنه من قال لا اله الالله سبعين الفا غفر الله تعالى له، ومن قبل له غفرلہ- ايضاء فكنت ذكرت التهليلة بالعدد المروى من غيران انوى لاحد بالخصوص فحضرت طعاما مع بعض الاصحاب و فيهم شاب مشهور بالكشف فاذا هو فى اثناء الاكل اظهر البكا، فسألته عن السبب، فقال ارى امي في العذاب فوهبت في باطى ثواب التهليلة المذكورة لها فضحك وقال انى اراهاالآن في حسن العاب فقال الشيخ معرفت صحة الحديث بصحة كشفه وصحة كشفه بصحة الحديث ”
یعنی امام ترمزی نے فرمایا یہ حدیث غریب ہے اور اہل علم کا اس پر عمل ہے
سید میرک نے امام نووی سے نقل کیا کہ اس کی سند ضعیف ہے تو گویا امام تردمزی عمل ال علم سے حدیث کو قوت دینا چاہتے ہیں واللہ تعالی اعلم
اس کی نظیر وہ ہے کہ سیدی شیخ اکبر امام محی الدین ابن عربی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا مجھے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے حدیث پہنچی ہے کہ جو شخص ستر ہزار بار لا الہ الا اللہ کہے اس کی مغفرت ہو اور جس کے لئے پرھا جائے اس کی مغفرت ہومیں نے لاالہ الااللہ اتنے بار پرھاتھا اس میں کسی کے لئے خاص نیت نہ کی تھی اپنے بعض رفیقوں کے ساتھ ایک دعوت میں گیا ان میں ایک جوان کے کشف کا شہرہ تھا کھانا کھاتے کھاتے رونے لگا میں نے سبب پوچھا کہااپنی ماں کو عذاب میں دیکھتا ہوں ، میں نے اپنے دل میں کلمہ کا ثواب اُس کی ماں کو بخش دیا فورا وہ جو ان ہنسنے لگا اور کہا اب میں اسے اچھی جگہ دیکھتا ہوں
امام محی الدین قد س سرہ فرماتے ہیں تو میں نے حدیث کی صحت اُس جوان کے کشف کی صحت سے پہچانی اور اس کے کشف کی صحت حدیث کی صحت سے جانی
امام سیوطی تعقابت نے فرمایا قد صرح غیرواحد بان من دليل صحة الحديث قول أهل العلم به وان لم یکن لہ اسناد یعتمدعلی مثلہ علمانے تصریح فرمائی ہے کہ اہل علم کی موافقت صحت حدیث کی دلیل ہوتی ہے اگر چہ
اس کے لئے کوئی سند قابل اعتماد نہ ہو۔
مزید پڑھیں:ضعیف روایت تعدد طرق سے قوت پا جاتی ہے، اس کے لئے کم از کم کتنے طرق چاہئیں؟
READ MORE  Fatawa Rizvia jild 05, Fatwa 327

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top