:سوال
کیا زندوں کے قبرستان آنے اور ذکر وغیرہ سے مردے کا جی بہلتا ہے؟
:جواب
ملاقات احیاء وذکر خدا سے اموات کا جی بہلتا ہے۔ امام سیوطی نے انیس الغریب میں فرمایا ” و یانسون ان اتى المقابر ” جب زائرین مقابر پر آتے ہیں مردے ان سے انس حاصل کرتے ہیں۔
جذب القلوب میں فرمایا ” زیارت گاهی از جهت ادائے حق اهل قبور باشد در حدیث آمده مانوس ترین حالتیکه میت را بود در وقت کریکے از آشنایان او زیارت قبر او کند وا حادیث دریں باب بسیار است زیارت کبھی قبر والوں کے حق کی ادائیگی کے لیے ہوتی ہے، حدیث میں آیا ہے کہ میت کے لیے سب سے زیادہ انس کی حالت وہ ہوتی ہے جب اس کا کوئی پیارا آشنا اس کی زیارت کے لیے آتا ہے۔ اس باب جذب ) میں احادیث بہت ہیں۔
جذب القلوب ص 213 منشی نولکثور لکھنو
فتاوی قاضی خاں پھر فتاوی عالمگیری میں ہے
ان قرأ القرآن عند القبور نوى ذلك ان يونسه صوت القرآن فانه يقرا
مقابر کے پاس قرآن پڑھنے سے اگر یہ نیت ہو کہ قرآن کی آواز سے مردے کا جی بہلائے تو بیشک پڑھے۔
(فتاوی ہندیہ، ج 5، ص 350 نورانی کتب خانہ، پشاور )
مزید پڑھیں:فوت شدگان سلام کے علاوہ کلام اور آوازیں سنتے ہیں
طحطاوی حاشیه مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں تلقین میت کے مفید ہونے میں فرمایا ” ان الميت يستانس بالذكر على ما ورد في الآثار ” بیشک اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مردے کا جی بہلتا ہے جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے۔
(حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص 306، نور محمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی)
امام قاضی خاں فتاوی خانیہ میں فرماتے ہیں یکرہ قطع الحطب والحشيش من المقبرة فان كان يابساً لا باس لانه مادام رطباً يسبح فيونس الميت چوب و گیاہ سبز ( تر لکڑی اور ترگھاس) کا مقبرہ سے کاٹنا مکروہ ہے اور خشک ہو تو مضائقہ نہیں کہ وہ جب تک تر رہتی ہے تسبیح خدا کرتی ہے اور اس سے میت کا جی بہلتا ہے۔
(فتاوی قاضی خاں ، ج 1 ص93 نولکشورلکھنو)
علامہ شامی نے اسی حدیث سے دلیل کر کے فرمایا ” اس بناء پر مطلقا کراہت ہے اگر چہ خور در و ہو کہ قطع میں حق میت کا ضائع کرتا ہے۔
تنبیہ فقیر کہتا ہے غفر اللہ تعالی لہ علماء کی ان عبارات سے دو جلیل فائدے حاصل۔ :
مزید پڑھیں:روحیں نہیں مرتیں، اس بارے میں علماء کے کچھ اقوال
اولا نباتات و جمادات و تمام اجزائے عالم میں ہر ایک کے موافق ایک حیات ہے کہ اس کی بقا تک ہر شجر وحجر زبان قال سے اس رب اکبر جل جلالہ کی پاکی بولتا ہے اور سبحان اللہ یا اس کے مثل اور کلمات تصحیح الہی کہتا ہے نہ کہ ان میں صرف زبان حال ہے جیسا کہ ظاہر بینی کا مقال ہے کہ اس تقدیر پر تر وخشک میں تفرقہ محض بے معنی تھا کمالایخفی (جیسا کے مخفی نہیں) اور آیت کریمہ وان من شئ الا يسبح بحمده ) خوداس پر برہان قاطع کہ اس میں فرمایا ولكن لا تفقهون تسبيحهم تم اس کی تسبیح نہیں سمجھتے۔
ظاہر کہ تسبیح حالی تو ہر شخص عاقل سمجھتا ہے۔
اور خود مذہب اہلسنت مقرر ہو چکا کہ تمام ذرات عالم کے لیے ایک نوع علم و ادراک وسمع و بصر حاصل ہے، مولوی معنوی قدس سرہ نے مثنوی شریف میں اس مضمون کو خوب مشرح ادا فرمایا، اور اس پر قرآن واحادیث کے صدہا نصوص ناطق ۔ جنھیں جمع کروں تو ان شاء اللہ پانسو سے کم نہ ہوں گے۔ ان سب کو بلا وجہ ظاہر سے پھیر کر تاویل کرنا تو قانون عقل و نقل سے خروج بلکہ صراحة سفاہات مبتدعین میں ولوج ( دخول ) ہے خصوصاً وہ نصوص ( مثلاً وہ حدیثیں جن میں صاف ارشاد ہوا کہ نہ کوئی جانور شکار کیا جائے، نہ کوئی پیڑ کاٹا جائے جب تک تسبیح الہی میں غفلت نہ کرے۔ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(ما صید صید ولا قطعت شجرة الابتضييع التسبيح)
جو صریح مفسر ہیں کہ تاویل کی گنجائش ہی نہیں رکھتے ۔
ثانيا اقوال مذکورہ سے یہ بھی منصہ نبوت پر جلوہ گر ہوا کہ اہل قبور کی قوت سامعہ اس درجہ تیز وصاف وقوی تر ہے کہ نباتات کی تسبیح جسے اکثر احیاء نہیں سنتے وہ بلا تکلف سنتے اور اس سے اُنس حاصل کرتے ہیں۔ پھر انسان کا کلام تو واضح اور اظہر ہے والله تعالى الهادی۔
مجمع البرکات میں مطالب المومنین سے اور کنز العباد و فتاوی غرائب وغیر ہا میں ہے: وضع الورد والرياحين على القبور حسن لانه مادام رطبا يسبح ويكون للميت انس بتسبیحہ ” گلاب وغیرہ کے پھول قبروں پر ڈالنا خوب ہے کہ جب تک تازہ رہیں گے تسبیح الہی کریں گے تسبیح سے میت کو انس حاصل ہوگا۔
( فتاوی ہندیہ ، ج 5، ص 351، نورانی کتب خانہ پشاور )
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 757