:سوال
کیا اطلاق و عموم سے استدلال قیاس کہلاتا ہے اور یہ مجتہد کے ساتھ خاص ہے؟
:جواب
اطلاق و عموم سے استدلال نہ کوئی قیاس ہے نہ مجتہد سے خاص ۔۔ مثلاً اس اخیر زمانہ فتن میں طرح طرح کے نشے قسم قسم کے باجے ایسے پیدا ہوئے جن کی حرمت کا ذکر نہ قرآن مجید میں ہے نہ حدیث شریف میں نہ اقوال ائمہ میں ،مگر انہیں حرام ہی کہا جائے گا کہ وہ ”کل مسکر حرام ” ( ہر نشہ آور شے حرام ہے ) کے عموم اور یہ حدیث” يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف ” ( وہ ریشم ، شراب اور مزامیر کو حلال سمجھیں گے )
( صحیح بخاری ، ج 2 ،ص 837 ،قدیمی کتب خانہ، کراچی)
و ( آية ) كريم(وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهُوَ الْحَدِيثِ )(اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں ) کے شمول و اطلاق میں داخل۔ اب اگر کوئی جاہل کہہ اُٹھے کہ یہ تو تم قیاس کرتے ہوا حادیث میں کہیں تصریح نہیں پائی جاتی نہ ہمارے امام صاحب کے تابعین سے، ہمارا تمہارا قیاس مسائل فقہیہ دینیہ میں بیکار ہے تو اس سے یہی کہنا چاہئے کہ اے ذی ہوش ! یہ قیاس نہیں بلکہ جب ایک مطلق یا عام احادیث و کلمات علمائے کرام میں وارد ہے تو اس کے دائرے میں جو کچھ داخل سب کو وہ حکم محیط و شامل ۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 496