:سوال
چند مسلمانوں نے ایک صاحب کے لیے ماہانہ کچھ رقم زکوۃ کے مال سے مقرر کی ہوئی ہے، مقصود ان لوگوں کا ایک مسلمان بزرگ و مسکین کے ساتھ سلوک کرناہے، کسی خدمت وغیرہ کا بدل نہیں، بلکہ ایسے شخص کا اپنے محلہ ومسجد میں رہنا موجب خیر و برکت سمجھا، اسی طور عرصہ قریب چار سال کی گزرا کہ یہ لوگ موافق اپنے وعدے اور نیت کے خواہ وہ بزرگ اپنے وطن کو گئے یا یہاں رہے، دیتے اور ادا کرتے رہے، مگر بعض نے ان میں عذر کیا اور کہا ہم ایام غیر حاضری کا نہ دیں گے، تو اس صورت میں زکوۃ ان لوگوں کی ادا ہوئی یا نہ ہوئی؟
:جواب
(اس سوال کے جواب سے پہلے امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے چند امور دلائل کے ساتھ ثابت فرمائے)
اصل یہ ہے کہ زکوۃ میں نیت شرط ہے بے اس کے ادا نہیں ہوتی۔
اور نیت میں اخلاص شرط ہے بغیر اس کے نیت مہمل ۔
اور اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ زکوۃ صرف بہ نیت زکوۃ وادائے فرض و بجا آوری حکم الہی دی جائے ، اس کے ساتھ اور کوئی امر منافی زکوۃ مقصود نہ ہو۔
پھراس میں میں اعتبار صرف نیت کا ہے اگر چہ زبان سے کچھ اور اور اظہار کرے، مثلا دل میں زکوۃ کا کا ارادہ کیا اور زبان سے ہبہ یا فرض کہہ کر دیا صحیح مذہب پر زکوۃ ادا ہو جائیگی۔
پھر نیت بھی صرف دینے والے کی ہے، لینے والا کچھ سمجھ کر لے، اس کا علم اصلا معتبر نہیں۔
لہذا اگر عید کے دن اپنے رشتہ داروں کو جنہیں زکوۃ دی جاسکتی ہے کچھ روپے عیدی کا نام کر کے دیا اور انہوں نے عیدی ہی سمجھ کر لیا اور اس کے دل میں یہ نیت تھی ” میں زکوۃ دیتا ہوں بلا شبہ ادا ہو جائیگی ۔ اسی طرح اگر کوئی ڈالی لا یار مضان مبارک میں سحری کو جگانے والا عید کا انعام لینے آیا یا کسی شخص نے دوست کے آنے یا اور کسی خوشی کا مژدہ سنایا اس نے دل میں زکوۃ کا قصد کر کے ان لوگوں کو کچھ دے دیا، یہ دینا بھی زکوۃ ہی ٹھہرے گا، اگر چہ ان کے ظاہر میں ڈالی لانے یا سحری کو جگانے یا خوشخبری کو سنانے کا انعام تھا، اور انہوں نے اپنی دانست میں یہی جان کر لیا۔
مزید پڑھیں:کیا عشر کا ذکر بھی قرآن مجید میں ہے؟
پھر زکوۃ صدقہ ہے اور صدقہ شرط فاسد سے فاسد نہیں ہوتا بلکہ وہ شرط ہی فاسد ہو جاتی ہے، مثلا زکوۃ دی اور یہ شرط کر لی کہ یہاں رہے گا تو دوں گا ورنہ نہ دونگا، اس شرط پر دیتا ہوں کہ تو یہ روپیہ فلاں کام میں صرف کرے، اس کی مسجد بنادے یا کفن اموات میں اٹھا دے تو قطعا ز کوۃ ادا ہو جائیگی اور یہ شرطیں سب باطل و مہمل ٹھہریں گی۔
پھر جب صریح شرط با وجود خلوص نیت ادائے زکوۃ میں خلل انداز نہیں تو ایسا برتاؤ جو بظاہر معنی شرط پر دلالت کرے مثلاً جب یہاں رہے تو دے اور نہ رہے تو نہ دے، بدرجہ اولی باعث خلل نہ ہو گا۔
جب یہ امور ذہن نشین ہو لیے تو جواب مسئلہ بحمدہ تعالٰی واضح ہو گیا ، اگر وہ دینے والے بقصد معاوضہ و بطور اجرت دیتے یا بیت زکوۃ کے ساتھ یہ نیت بھی ملا لیتے تو بیشک زکوۃ ادانہ ہوتی۔
جبکہ تقریر سوال سے ظاہر کہ انہوں نے محض بہ نیت زکوۃ دیا اور اسے زکوۃ ہی خیال کیا، معاوضہ و اجرت کا اصلاً لحاظ نہ تھا تو بے شک زکوۃ ادا ہو گی اگر چہ وہ شخص جسے زکوۃ دی گئی اپنے علم میں کچھ جانتا ہو، اگر چہ انہوں نے اس سے صاف کہہ بھی دیا کہ یہاں رہو گے تو دیں گے ورنہ نہ دیں گے، اگر چہ وہ عمل بھی اس کے مطابق کریں یعنی ایام حاضری میں دیں غیر حاضری میں نہ دیں کہ جب نیت میں صرف زکوٰۃ کا خاص قصد ہے تو اُن میں کوئی امر اُس کا نافی و منافی نہیں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 65 تا 69