ضعیفی اور کمزوری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں، ایسی صورت میں اس کو کیا کرنا چاہئے؟
:سوال
ایک شخص کی عمر 75 سال کی ہے اور کمزوری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں، ایسی صورت میں اس کو کیا کرنا چاہئے اور اگر فدیہ دینا بنتا ہو تو اکٹھا دیا جائے یا ہر روزہ کا علیحدہ علیحدہ؟
:جواب
طاقت نہ ہونا ایک تو واقعی ہوتا ہے اور ایک کم ہمتی سے ہوتا ہے کم ہمتی کا کچھ اعتبار نہیں، اکثر اوقات شیطان دل میں ڈالتا ہے کہ ہم سے یہ کام ہرگز نہ ہو سکے اور کریں گے تو مر جائیں گے، بیمار پڑ جائیں گے، پھر جب خدا پر بھروسہ کرکے کیا جاتا ہے تو اللہ تعالی ادا کرا دیتا ہے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچتا، معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیطان کا دھوکا تھا 75 برس عمر میں بہت لوگ روزے رکھتے ہیں، ہاں ایسے کمزور بھی ہو سکتے ہیں کہ ستر ہی برس کی عمر میں نہ رکھ سکیں
تو شیطان کے وسوسوں سے بیچ کر خوب صحیح طور پر جانچ چاہئے، ایک بات تو یہ ہوئی ۔ دوسری یہ کہ ان میں بعض کو گرمیوں میں روزہ کی طاقت واقعی نہیں ہوتی مگر جاڑوں ( سردیوں) میں رکھ سکتے ہیں یہ بھی کفارہ نہیں دے سکتے بلکہ گرمیوں میں قضا کر کے جاڑوں میں روزے رکھنا ان پر فرض ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ان میں بعض لگا تار مہینہ بھر کے روزے نہیں رکھ سکتے مگر ایک دو دن بیچ کر کے رکھ سکتے ہیں تو جتنے رکھ سکیں اتنے رکھنا فرض ہے جتنے قضا ہو جائیں جاڑوں میں رکھ لیں۔ چوتھی بات یہ ہے کہ جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے انہیں بھی کفارہ دینے کی اجازت نہیں بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں، اگر قبل شفاموت آجائے تو اس وقت کفارہ کی وصیت کر دیں۔
غرض یہ ہے کہ کفارہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں ، نہ لگا تار نہ متفرق ، اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اُس عذر کے جانے کی امید نہ ہو، جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اُسے ایسا ضعیف کر دیا کہ گنڈے دار روزے متفرق نہ کر کے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا تو بڑھاپا تو جانے کی چیز نہیں ایسے شخص کو کفارہ کا حکم ہے۔۔ اسے کفارہ کا اختیار ہے کہ روز کا روز دے دے یا مہینہ بھر کا پہلے ہی ادا کر دے یا ختم ماہ کے بعد کئی فقیروں کو دے یا سب ایک ہی فقیر کو دے سب جائز ہے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 547

READ MORE  سود خور اور فاسق کے پیچھے نماز کا حکم
مزید پڑھیں:کوئی شخص جو کہ شیخ فانی نہیں ہے، کیا اپنی زندگی میں اپنے فوت شدہ روزے کا فدیہ دے سکتا ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top