:سوال
: درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں
جمعہ وعیدین کا خطبہ عربی میں پڑھ کر اردو میں ترجمہ کرنا کیسا ؟ (2) صرف اردو میں خطبہ پڑھنا کیسا ؟ (3) کچھ عربی کچھ اردو میں خطبہ پڑھنا کیسا ؟ (4) خطبہ کا صرف اشعار پر مشتمل ہونا کیسا ؟ (5) خطبہ میں کچھ اشعار داخل کرنا کیسا ؟
:جواب
: یہ سوال چند امور پر مشتمل
(1)
عیدین میں بہ نیت خطبہ ہو تو نا پسند اور اس کا ترک احسن اور بعد ختم خطبہ، نہ بنیت خطبہ بلکہ قصد پند و نصیحت جدا گانہ ہوتو جائز وحسن اور جمعہ میں مطلقا مکروہ و نامستحسن، دلیل حکم و وجہ فرق یہ کہ زبان برکت نشان رسالت سے عہد صحابہ کرام و تابعین عظام و ائمه اعلام تک تمام قرون و طبقات میں جمعہ وعیدین کے خطبے ہمیشہ خالص زبان عربی مذکور و ماثور اور با آنکہ زمانہ صحابہ میں بحمد اللہ تعالی اسلام صد ہا بلاد عجم میں شائع ہوا، جوامع بنیں، منابر نصب ہوئے ، با وصف تحقیق حاجت کبھی کسی عجمی زبان میں خطبہ فرمانا یا دونوں زبانیں ملانا مروی نہ ہوا تو خطبے میں دوسری زبان کا خلط سنت متوارثہ کا مخالف و مغیر ہے اور وہ مکروہ۔ مگر عیدین میں خطبہ بعد نماز ہے تو وہ مستوعد وقت نہیں ہو سکتا نیت قطع اپنا عمل کرے گی اور بعد فراغ خطبہ کہ تمام امور متعلقہ نماز عید منتہی ہو گئے ، مسلمان کو تذکیر و تفہیم ممنوع نہیں بلکہ مندوب ، اور خود سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
مزید پڑھیں:جمعہ کس سال فرض ہوا ؟
بخلاف جمعہ کہ اس میں خطبہ قبل نماز ہے اور شروع تذکیر سے آغاز تکبیر تک اس کا وقت ہے لہذا افصل بہ اجنبی نا جائز ، یہاں تک کہ اگر فصل طویل حاصل ہو خطبہ زائل اور اعادہ لازم، ورنہ نماز باطل ہو، اور غیر اجنبی سے بھی فصل پسندیدہ نہیں اور اعادہ خطبہ اولی۔ اور شک نہیں کہ خطبہ خواندہ کا ترجمہ یا اور مواعظ و نصائح جو اس وقت میں واقع ہوں گے انھیں مقاصد و مضامین خطبہ پر مشتمل ہوں گے تو وقت خطبہ میں ایقاع تذکیر بہ نیت تذکیر قطعاً اُسے داخل خطبہ کرے گا اور نیت قطع بے معنی رہے گی کہ عمل و واقع صراحۃ اس کا مکذب ہوگا۔ اگر بالفرض قطع ہی ما نیے تو فصل لازم آئے گا اگر چہ غیر اجنبی سےتو سنت مستمرہ وصل کے خلاف ہو گا ہی بہر حال خالی از کراہت نہیں۔
(2)
صرف اردو خطبہ اس کی کراہت بیان بالا سے اظہر و از ہر خصوصاً جبکہ یہ صرف اپنی صرافتہ محضہ پر ہو کہ اب تو اس کا مکروہ و شنیع ہونا صراحۃ منصوص کہ خطبہ میں تلاوت قرآن عظیم کا ترک بُرا ہے۔
مزید پڑھیں:عیدین یا جمعہ میں بوجہ کثرت تعداد کے سجدہ سہو ترک کرنا کیسا؟
(3)
کچھ عربی کچھ اردو اس کا حال بھی بیان سابق سے واضح ہو چکا مگر جب امام بحالت خطبہ کوئی امر منکر دیکھے تو اُس سے نہی کیا ہی چاہئے اور جب وہ عربی سمجھتا یا امام خود عربی میں کلام کرنا نہیں جانتا تو نا چار زبان مقدور و مفہوم کی طرف رجوع ہوگی یہ کلام جو خطبہ میں ہو گا خطبہ ہی ہوگا کہ امر بالمعروف بھی اُس کے مقاصد حسنہ سے ہے۔۔۔ یوں ایک حصہ خطبہ اردو میں ہونا البتہ مکروہ نہیں بلکہ واجب تک ہو سکتا ہے جبکہ ازالہ منکر اسی میں منحصر ہو۔
(4)
محض اشعار پر قناعت یہ ضرور مکروہ وا ساءت و خلاف سنت و موجب ترک تلاوت، اور اگر ایک آیت طویلہ یا تین آیت قصیرہ کو نظم کر کے لائیں تو اول تو غالبا یہ بلاتغییر نظم قرآن نامتیسر اور بد تغییر نظم تلاوت نہ رہے گی اگر چہ اقتباس ہو، اور اگر بن بھی پڑے تو ادائے سنت تلاوت کے لئے قرآن مجید کو منظوم کر کے پڑھنا ترک قرآت سے اشد واشنع ہے، قرآن عظیم شعر سے پاک و منزہ اور اپنے شعر بننے کی گوارش سے متعالی وارفع ہے۔۔۔ تو اس طور پر قصد تلاوت صریح اسماء اسماءت ادب ہے۔ اور یُوں بھی نظم پر اقتصار میں بلاوجہ کلمات ماثورہ و طریقہ متوارثہ سے اعراض ہے تو اُس سے اعراض ہی چاہئے۔
(5)
بعض اشعار محمودہ ملائمہ داخل کرنا یہ اگر زبان عجم ہوں تو وہی امرسوم ہے ورنہ کچھ حرج نہیں خصوصاً جبکہ احیانا ہو کہ امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خطبہ میں بعض اشعار پڑھنا مروی۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 322 تا 325