جمعہ کی دوسری آذان مسجد میں دلوانا کس نے شروع کروایا؟
سوال
ہماری مسجد میں جو شخص نماز جمعہ پڑھاتے ہیں وہ خطبہ کے وقت اذان مسجد کے اندر دلوایا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دوسری اذان جمعہ کی خطبہ کے وقت خلیفہ ہشام نے مسجد کے اندر لوگوں سے دلوانا شروع کی ہے وہ بدعت حسن ہے یعنی وہ بدعت سیئہ نہیں ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ سلم سے ہمیشہ اذان کا مسجد کے دروازہ پر ہونا ثابت نہیں ہے اس وجہ سے جو لوگ مسجد کے اندر اذان دلواتے ہیں ان کو منع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہ بدعت حسن کرتے ہیں، اس کی یہ باتیں درست ہیں یا نہیں؟
جواب
رسول الله صل الله علیہ و سلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم سے مسجد کے اندر اذ ان دلوانا کبھی ایک بار کا بھی ثابت نہیں ، جو لوگ اس کا دعوی کرتے ہیں رسول اللہ صل اللہ تعالیٰ علیہ سلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم پر افترا کرتے ہیں ،
ہشام سے بھی اس ( جمعہ کی اذان کا مسجد کے اندر دلوانا ہرگز ثابت نہیں البتہ پہلی اذان کے نسبت بعض نے لکھا ہے کہ اُسے ہشام مسجد کی طرف منتقل کر لایا اور اس کے بعد یہ معنی نہیں کہ مسجد کے اندر دلوائی
بلکہ امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ بازار میں پہلی اذان دلواتے تھے ہشام نے مسجد کے منارہ پر دلوائی رہی یہ دوسری اذان خطبہ، اس کی نسبت تصریح ہے کہ ہشام نے اس میں کچھ تغیر نہ کیا اسی حالت میں باقی رکھی جیسی زمانہ رسالت و زمانہ خلافت میں تھی
ہاں وہ جمہور مالکیہ کے اذان ثانی کو امام کی محاذات میں سامنے ہونا بدعت کہتے ہیں اور اس کا بھی منارہ پر ہی ہونا سنت بتاتے ہیں
ان میں بعض کے کلام میں واقع ہوا کے سب سے پہلے اذان ثانی امام کے روبرو ہشام نے کہلوائی نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم خلفائے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانہ میں یہ اذان بھی محاذات امام نہ ہوتی تھی منارہ ہی پر تھی پھر اس سے کیا ہوا
غرض ہشام بیچارے سے بھی ہرگز اس کا ثبوت نہیں کہ اس نے اذان خطبہ مسجد کے اندر منبر کے برابر کہلوائی ہو جیسی اب کہی جانے لگی اس کا کچھ پتا نہیں کہ کس نے یہ ایجاد نکالی۔
اور اگر ہشام سے ثبوت ہوتا بھی تو اس کا قول و فعل کیا حجت تھا، وہ ایک مروانی ظالم بادشاہ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بیٹے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے پوتے امام زین العابدین کے صاحبزادے امام باقر کے بھائی سید نا امام زید بن علی بن حسین بن علی رضی اللہ تعلی عنہم کو شہید کرایا سو لی دلوائی اور اس پر یہ شدید ظلم کی نعش مبارک کو دفن نہ ہونے دیا برسوں سولی پر رہی جب ہشام مرگیا نعش مبارک دفن ہوئی ان برسوں میں بدن مبارک کے کپڑے گل گئے تھے قریب تھا کہ بے ستری ہو اللہ عزوجل نے مکڑی کو حکم فرمایا کہ اس نے جسم مبارک پر ایسا جالاتان دیا کہ بجائے تہبند ہو گیا رسول اللہ صل اللہ تعلی علیہ وسلم کی بعض صالحین نے دیکھا کہ امام مظلوم زید شہید رضی اللہ تعالی عنہ کی سولی سے پشت اقدس لگائے کھڑے ہیں اور فرماتے ہیں یہ کچھ کیا جاتا ہے میرے بیٹوں کے ساتھ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم ۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ سلم و خلفائے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کی سنت کے خلاف ایسے ظالم کی سنت پیش کرنا اور پھر امام اعظم و غیرہ ائمہ پر اس کی تہمت دھرنا کہ ان اماموں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وخلفائے راشدین کی سنت چھوڑ کر ظالم بادشاہ کی سنت قبول کر لی ، کیسا صریح ظلم اور ائمہ کرام کی شان میں کیسی بڑی گستاخی ہے اللہ عزوجل پناہ دے،
اس کے بدعت حسنہ ہونے کا دعوی محض باطل و بے اصل ہے۔ ( چند وجوہ سے )
(1) بدعت حسنہ سخت کو بدلا نہیں کرتی اور اس نے سنت کو بدل دیا۔
(2) مسجد میں اذان دینی مسجد و در بار الہی کی گستاخی و بے ادبی ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں ادب میں طریقہ معہودہ في الشاهد (حالیہ معروف طریقے ) کا اعتبار ہوتا ہے۔
اب دیکھ لیجئے کہ درباروں میں درباریوں کی حاضری پکارنے کا کیا دستور ہے، کیا عین دربار میں کھڑے ہو کر چو بدارچلاتا ہے کہ دربار یو چلو، ہرگز نہیں، بے شک ایسا کرے تو بے ادب گستاخ ہے جس نے شاہی دربار نہ دیکھے ہوں وہ یہی کچہریاں دیکھ لئے، کیا ان میں مدعی مدعا علیہ گواہوں کی حاضریاں کمرہ کے اندر پکاری جاتی ہیں یا کمرہ سے باہر جا کر، کیا اگر چپڑاسی خاص کمرہ کچہری میں کھڑا ہوا حاضریاں پکارے چلائے تو بے ادب گستاخ بنا کر نہ نکالا جائے گا ؟ افسوس جو بات ایک منصف یا جنٹ کی کچہری میں نہیں کر سکتے احکم الحاکمین جل جلالہ کے دربار میں روا رکھو۔
(3) مسجد میں چلانے سے خود حدیث میں ممانعت ہے اور فقہا نے یہ ممانعت ذکر الہی کو بھی عام رکھی جب تک شارع صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے ثبوت نہ ہو۔
نہ کہ اذان کہ یہ تو خالص ذکر بھی نہیں
كما في البنایة شرح الهداية للامام العینی
( جیسا کہ امام عینی نے بنا یہ شرح ہدایہ میں تصریح کی ہے )
(4) بلکہ شرع مطہر نے مسجد کو ہر ایسی آواز سے بچانے کاحکم فرمایا جس کے لئے مساجد کی بنانہ ہو
صحیح مسلم شریف میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے رسول اللہ صل للہ تعالی علیہ سلم فرماتے ہیں
” من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد، فليقل لاربها الله عليك فان المساجد لم تبن لھذا
جوگمی ہوئی چیز کومسجد میں دریافت کرے اس سے کہو اللہ تیری گمی چیز تجھے نہ ملے مسجدیں اس لئے نہیں بنیں
حدیث میں حکم عام ہے اور فقہ نے بھی عام رکھا، در مختار میں ہے کرہ انشاد ضالة ” ( مسجد میں گم شدہ چیز کی تلاش مکروہ ہے )۔
تو اگر کسی کا مصحف شریف گم ہو گیا اور وہ تلاوت کے لئے ڈھونڈتا اور مسجد میں پوچھتا ہے اُسے بھی یہی جواب ہوگا کہ مسجد میں اس لئے نہیں بنیں، اگر اذان دینے کے لئے مسجد کی بنا ہوتی تو ضرور حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مسجد کے اندر ہی اذان دلواتے یا کبھی کبھی تو اس کا حکم فرماتے مسجد جس کے لئے بنی زمانہ اقدس میں اُس کا مسجد میں ہونا کبھی ثابت نہ ہو، یہ کیونکر معقول،تو وجہ وہی ہے کہ اذان حاضری در بار پکارنے کو ہے اور خود در بار حاضری پکارنے کو نہیں بنتا۔
(5) رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ سلم کی عادت کر یمہ تھی کہ کبھی کبھی سنت کو ترک فرماتے کہ اس کا وجوب نہ ثابت ہو ترک کا جواز معلوم ہو جائے ولہذا علما نے سنت کی تعریف میں ” مع التراك احيانا ” ما خود کیا کہ ہمیشہ کیا مگر
کبھی کبھی ترک بھی فرمایا اور
یہاں اصلاً ایک بار بھی ثابت نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسجد کے اندر اذان دلوائی ہو جو مدعی ہو ثبوت دے۔
(6) فقہائے کرام نے مسجد میں اذان دینے کو مکروہ فرمایا ۔ اور حنفیہ کے یہاں مطلق کراہت سے غالبا مراد کر اہت تحریم ہوتی ہے جب تک اس کے خلاف پر دلیل قائم نہ ہو اور بیان خلاف پر دلیل در کنار اس کے موافق دلیل موجود ہے کہ یہ گستاخی در بار معبود ہے۔
(7) فقہائے کرام نے مسجد میں اذان دینے سے بصیغہ انی منع فرمایا کہ صیغہ نہی سے زیادہ مؤکد ہے ۔ ۔ فقہا کا یہ صیغہ غالبا اس کے ناجائز ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ان وجوہ پر نظر انصاف کے بعد مجموع سے کم از کم اتنا ضرور ثابت کہ مسجد کے اندر اذان بدعت سیئہ ہے ہر گز حسنہ نہیں۔
مزید پڑھیں:جمعہ کی آذان ثانی محراب میں دےسکتے ہیں یانہیں؟
READ MORE  Fatawa Rizvia jild 05, Fatwa 304

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top