ایک شخص جنگل میں ملازم ہے وہ مسافر ہوگا یا نہیں؟
:سوال
ایک شخص علاقہ نیپال کے جنگل میں ملازم ہے اور ایسی جگہ رہتا ہے جہاں سے ایک یا دو میل یا کم وزیادہ کے فاصلے پر آبادی اور زراعت ہوتی ہے اور آقا جب بھیجتا ہے تو کچھ مدت مقرر نہیں کرتا تو ان صورتوں میں ملازم کو نماز قصر ادا کرنا واجب ہے یا پوری ؟ اور اگر خود مختار ہے تو اس کو قصر پڑھنا چاہئے یا پوری؟ زید کا قول کہ نماز قصر ادا کرنا واجب ہے کیونکہ اول عملداری ہندو کی ہے یعنی نیپال ، دوسرے جگہ اقامت پر نہ آبادی ہے نہ زراعت ہوتی ہے یعنی کچھ فاصلے پر ہے، تیسرے یہ صورت اول میں خود مختار نہیں ، آقا جب چاہے منتقل یا علیحدہ کر سکتا ہے۔ کیا اس کا قول درست ہے؟
: جواب
جو مسافر نہ تھا اور اُس جنگل تک جانے میں بھی اُسے سفر کرنا نہ پڑا کہ فاصلہ تین منزل سے کم تھا، وہ تو ظاہر ہے کہ مقیم تھا اور مقیم رہا اسے قصر حرام ہے اور پوری پڑھنی فرض ہے اگر چہ وہ جگہ نرابن ( جنگل ) ہو۔ اور جو مسافر تھا یا وہاں تک جانے سے مسافر ہوا کہ فاصلہ تین منزل یا زائد کا تھا وہ ضرور مسافر ہے، اگر عادت معلوم ہے کہ جس کام کے لئے بھیجا گیا وہ پندرہ دن یا زائد میں ہوگا اور جگہ ایسی ہو جہاں اقامت ممکن ہے اگر چہ آبادی وہاں سے دو تین میل فاصلہ پر ہو اور زراعت نہ ہو وہاں پہنچ کر مقیم ہو جائے گا اور پوری پڑھنی لازم ہوگی خاص وہاں زراعت ہونا کچھ ضرور نہیں، نہ ہندو کی علمداری ہونا کچھ مانع کہ یہ آمد و رفت امان کے ساتھ ہے، اس سے تعرض نہیں کیا جاتا ۔ در مختار میں ہے من دخلها بأمان فانه يتم ترجمہ: جو امان کی بنا پر داخل ہو ا وہ نمازی پوری پڑھے۔ در مختار، ج 1، ص 107 مطبع مجتبائی دہلی) اور یہ احتمال کہ شاید کوئی ضرورت پیش آئے اور جس کا نوکر ہے وہ دوسری جگہ بھیجے معتبر نہیں، ایسا احتمال ہر شخص کو ہر حال میں ہے، اور جب نوکر کا یہ حکم ہے تو خود مختار تو بدرجہ اولی جبکہ پندرہ دن یا زائد کی نیت کی ہو۔
READ MORE  نماز عیدین کے بعد دُعا مانگنا کہاں سے ثابت ہے؟

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top