:سوال
اگر امام کوئی مستحب ترک کرے تو کیا مقتدیوں پر اس کا ترک بحکم متابعت واجب ہوتا ہے اور دلیل یہ کہ متابعت ( پیروی کرنا )فرض ہے اور وہ فعل مستحب ، اور قاعدہ کلیہ ہے کہ مستحب فرض کا مزاحم نہیں ہو سکتا۔
:جواب
متابعت امام ہر نقل و ترک میں علی الاطلاق فرض و واجب کیا معنی مسنون اور مستحب بھی نہیں بلکہ بعض صورتیں خلاف اولی اور بعض میں محض نا جائز ہوتی ہے۔ پھر اگر اس مستحب متروک الامام ( وہ مستحب جو امام نے چھوڑا ہے ) کے فعل سے کسی واجب فعلی میں مخالفت امام لازم نہ آئے تو اس کا فعل ہی اولی اور انسب ہوگا، اور وہ مستحب درجہ استحباب سے بھی نہ گرے گا، چہ جائیکہ بسبب ترک متابعت حرام یا ہلکے درجے کا مکروہ ہی ہو جائے۔
کیا اگر امام ادب نظر کی مراعات نہ کرے تو مقتدی بھی آنکھیں پھاڑے دیوار قبلہ کو دیکھتے رہیں، کیا اگر امام بحالت قیام پاؤں میں فصل زیادہ رکھے تو مقتدی بھی ٹانگیں چیرے کھڑے رہیں، کیا اگر ایسانہ کریں تو بحکم متابعت تارک واجب و آئم و گنہگار ہوں گے۔ لا يقول به عاقل فضلا عن فاضل ( اس کو کوئی عاقل نہیں کہہ سکتا چہ جائیکہ کوئی فاضل کہے )۔ اسی قبیل سے ہے عمامہ باندھنا مسواک وغیرہ کرنا (یعنی امام نے عمامہ نہ باندھا ہو اور وضو میں مسواک نہ کی ہو تو بھی مقتدی کرے گا ) ۔ اور یہیں سے ظاہر ہو گئی اس دلیل کی شناعت، اور یہ قاعدہ مسلمہ تعارض واجب وفرض و مستحب مانحن فیہ ( جو بحث ہم کر رہے ہیں ) سے محض بیگانہ اور اس کلیہ دلیل کے صریح ناقص ،نظم زندویسی کی وہ روایت ہے
مزید پڑھیں:ولد الزنا کو امام بنانا کیسا؟
جسے علامہ ابن امیر الحاج حلبی نے شرح منیہ میں نقل فرمایا ” حيث قال تسعة اشياء اذا لم يفعلها الامام لا يتركها القوم رفع يدين في التحريمة و الشاء مادام الامام في الفاتحة وتكبير الركوع والسجود والتسبيح فيهما والتسميع وقرأة التشهد والسلام وتكبيرات التشريق الم ملخصا” ترجمہ: ان کی عبارت یہ ہے کہ نو اشیاء ایسی ہیں اگر امام انھیں نہ کرے تو قوم ترک نہ کرے تحریمہ کے لئے رفع یدین ، ثناہ کا پڑھنا بشرطیکہ امام فاتحہ میں ہو، رکوع کی تکبیر، سجور کی تکبیر ان دونوں میں تسبیح سمع اللہ لمن -حمدہ کہنا، قرأة تشہد ، سلام اور تکبیرات تشریق۔
(غنیۃ المستملی شرح منيۃالمصلی، ص 528 ،سہیل اکیڈمی، لاہور)
کہ اگر ہر فعل میں متابعت امام فرض ہو، تو جس طرح مستحب مزاحم فرض نہیں ہو سکتا فن بھی بلکہ واجبات بھی صلاحیت مزاحمت نہیں رکھتے تو ان چیزوں میں ائمہ کایہ حکم کہ اگر امام نہ کرے جب بھی مقتدی نہ چھوڑیں کیونکر صیح ہوتا۔ متابعت امام صرف افعال نماز میں منظور ہے یا جو بات نماز سے کچھ علاقہ نہیں رکھتی اس میں بھی ضرور ہے، ہر تقدیر پانی اگر امام کھجلائے تو مقتدیوں میں بھی خارش بچ جائے ، اگر امام احیاناً ٹھنڈی سانسیں لے تو مقتدیوں کو بھی دھونکنی لگ جائے ، اور بر تقدیر اول کیا ترک مستحب بھی افعال نماز میں معدود ( یعنی شمار ہوتا ہے جس میں متابعت حتماً ( لازمی طور پر ) مقصود ہے۔
(ج6،ص437)
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 437