:سوال
امام کو لقمہ کب دے سکتے ہیں اور کب نہیں؟
: جواب
ہمارے امام رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک اصل ان مسائل میں یہ ہے کہ بتانا اگر چہ لفظاً قرآت یا ذ کر مثلا تسبیح د تکبیر ہے اور یہ سب اجزا و از کار نماز سے ہیں مگر معنی کلام ہے کہ اس کا حاصل امام سے خطاب کرنا اور اسے سکھانا ہوتا ہے یعنی تو بھولا ، اس کے بعد تجھے یہ کرنا چاہئے، پر ظاہر کہ اس سے یہی غرض مراد ہوتی ہے اور سامع کو بھی یہی معنی مفہوم ، تو اس کے کلام ہونے میں کیا شک رہا اگر چہ صورۂ قرآن یا ذکر ، ولہذا اگر نماز میں کسی یحیی نامی کو خطاب کی نیت سے یہ آیہ کریمہ( یحیی خذ الكتب بقوة) پڑھی بالا تفاق نماز جاتی رہی حالانکہ وہ حقیقہ قرآن ہے۔ اس بناء پر قیاس یہ تھا کہ مطلقا بتانا اگر چه بر محل ہو مفسد نماز ہو کہ جب وہ بلحاظ معنی کلام ٹھہرا تو بہر حال افساد نماز کرے گا
مگر یہ حاجت اصلاح نماز کے وقت یا جہاں خاص نص وارد ہے ہمارے ائمہ نے اس قیاس کو ترک فرمایا اور بحکم استحسان جس کے اعلی وجوہ سے نص و ضرورت ہے جواز کا حکم دیا۔ لہذا صحیح یہ ہے کہ جب امام قرآت میں بھولے مقتدی کو مطلقا بتانا ۱۰ اگر چہ قد روا جب پڑھ چکا ہوا اگر چہ ایک سے دوسرے کی طرف انتقال ہی کیا ہو کہ صورت اولی میں گو واجب ادا ہو چکامگر احتمال ہے کہ رکنے اور الجھنے کے سبب کوئی لفظ اس کی ہی زبان سے ایسا نکل جائے جو مفسد نماز ہو، لہذا مقتدی کو اپنی نماز درست رکھنے کے لئے بتانے کی حاجت ہے، بعض عوام حفاظ کو مشاہدہ کیا گیا کہ جب تراویح میں بھولے اور یاد نہ آیا تو ایں آں یا اور اسی کی قسم الفاظ بے معنی ان کی زبان سے نکلے اور فساد نماز کا باعث ہوئے۔ اور صورت ثانیہ میں اگر چہ جب قرآت رواں ہے تو صرف آیت چھوٹ جانے سے فساد نماز کا اندیشہ نہ ہو مگر اس بات میں شارع صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے نص وارد۔
والہذا اگر کوئی مکان میں آنے کا اذن (اجازت) چاہے اور یہ اس غرض سے کہ اسے نماز میں ہونا معلوم ہو جائے تسبیح یا تکبیر یا تہلیل کہے نماز فاسد نہ ہوگی کہ اس بارے میں بھی حدیث وارد۔ بس جو بتانا حاجت ونص کے مواضع سے جدا ہو وہ بیشک اصل قیاس پر جاری رہے گا کہ وہاں اس کے حکم کا کوئی معارض نہیں اس لئے اگر غیر نمازی یا دوسرے نمازی کو جو اس کی نماز میں شریک نہیں یا ایک مقتدی دوسرے مقتدی یا امام کسی مقتدی کو بتائے قطعا نماز قطع ہو جائے گی کہ اس کی غلطی سے اس کی نماز میں کچھ خلل نہ آتا تھا جو اسے حاجت اصلاح ہوتی تو بے ضرورت واقع ہوا اور نماز گئی بخلاف امام کہ اس کی نماز کا خلل بعینہ مقتدی کی نماز کا خلل ہے تو اس کا بتانا اپنی نماز کا بنانا ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 257