حدیث پر موضوع کا حکم لگانے کا طریقہ
سوال
جو حدیث ان سب سے خالی ہو کیا اس پر حکم وضع نہیں لگا سکتے؟
جواب
رہا یہ کہ جو حدیث ان سب سے خالی ہو اس پر حکم وضع کی رخصت کسی حال میں ہے، اس باب میں کلمات علمائے کرام تین طرز پرہیں:
انکار محض یعنی بے امور مذکورہ کے اصلا حکم وضع کی راہ نہیں اگر چہ راوی وضاع ( حدیث گڑھنے والا )، کذاب ہی پر اس کا مدار ہو،
امام سخاوی نے اس پر جزم فرمایا، فرماتے ہیں
مجرد تمرد الكذاب بل الوضاع ولو كان بعد الاستقصاء في التعتيش من حافظ متبحر تام الاستقراء غير مستلزم لذلك بل لابد معه من انضمام شيء مماسياتی ،
یعنی اگرکوئی حافظ جلیل القدر کہ علم حدیث میں دریا اور اس کی تلاش کامل ومحیط ہو تفتیش حدیث میں استقصا ئے تام کرے اور بااینہمہ حدیث کا پتا ایک راوی کذاب بلکہ وضاع کی روایت سے جدا کہیں نہ ملے تاہم اس سے حدیث کی موضوعیت لازم نہیں آتی جب تک امور مذکورہ سے کوئی امر اس میں نہ موجود ہو۔

کذاب وضاع جس سے عمدانبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر معاذ اللہ بہتان وافتراء کرنا ثابت ہو ، صرف ایسے کی حدیث کو موضوع کہیں گے وہ بھی بطریق ظن نہ بروجہ یقین کہ بڑا چھوٹا ھی کبھی سچ بولتا ہے اور اگر قصدافتراس سے بات نہیں تو اس کی حدیث موضوع نہیں اگر چہ مہتم بکذب و وضع ہو، یہ مسلک امام الشان وغیرہ علما ءکا ہے
نخبہ ونزھہ میں فرماتے ہیں
الطعن امان يكون لكذب الراوى بان يروى عنه مالم يقله صلى الله تعالى عليه وسلم متعمد الذلك او تهمته بذلك، الأول هو الموضوع، والحكم عليه بالوضع انما هو بطريق الظن الغالب لا بالقطع، اذقد يصدق الكذوب. والثاني هو المتروك
طعن يا تو كذب راوی کی وجہ سے ہوگا مثلا اس نے عمدا اپنی بات روایت کی جو نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نہیں فرمائی تھی یا اس پر ایسی تہمت ہو، پہلی صورت میں روایت کو موضوع کہیں گے اور اس پر وضع کا حکم یقینی نہیں بلکہ بطور ظن غالب ہے کیونکہ بعض اوقات بڑا چھوٹا بھی سچ ہوتا ہے، اور دوسری صورت میں روایت کو متروک کہتے ہیں۔

بہت علماء جہاں حدیث پر سے حکم وضع اٹھاتے ہیں وجہ رد میں کذب کے ساتھ تہمت کذب بھی شامل فرماتے ہیں یہ کیونکر موضوع ہو سکتی ہے حالانکہ اس کا کوئی راوی نہ کذاب ہے نہ متہم بالکذب کبھی فرماتے ہیں موضوع تو جب ہوتی کہ اس کا کاراوی متہم بالکذب ہوتا یہاں ایسا نہیں تو موضوع نہیں
بالجملہ اس قدر پر اجماع محققین ہے کہ حدیث جب ان دلائل و قرائن قطعیہ و غالبہ سے خالی ہو اور اُس کا مدار کسی متہم بالندب پر نہ ہوتو ہرگز کسی طرح اسے موضوع کہنا ممکن نہیں جو بغیر اس کے حکم بالوضع کر دے یا مشدد مفرط (حد سے بڑھ کر شدت کرنے والا) ہے یا مخطی غالط ( خطذ و غلطی کرنے والا ) یا متعصب مخالط ۔
مزید پڑھیں:حدیث کا موضوع ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟
READ MORE  عید کی نماز سے پہلے درزی کا کام کرنا کیسا؟

About The Author

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top