حدیث کو محدث موضوع یا ضعیف کہے اور دوسرا نفی کر دے
:سوال
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک حدیث کو کوئی محدث موضوع یا ضعیف کہے اور دوسرا اس کی نفی کر دے؟
:جواب
ہم نے ( ماقبل میں )بہت نصوص نقل کیے کہ بار ہا محدثین کا کسی حدیث کو موضوع یا ضعیف کہنا ایک سند خاص کے اعتبار سے ہوتا ہے نہ کہ اصل حدیث کے۔ ابوداؤد اور نسائی میں ہے ” امرأة انت النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ومعها ابنة لها وفي يد ابنتها مسكتان غليظتان من ذهب فقال أتعطين زكاة هذا قالت لا قال ايسرك ان يسورك الله بهما يوم القيمة سوارين من نار قال فخلعتهما فالقتهما إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم فقالت هما الله ورسوله۔
يعنی ایک بی بی خدمت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں حاضر ہوئیں اُن کی بیٹی ان کے ساتھ تھیں دختر کے ہاتھ میں سونے کے کڑے تھے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ان کی زکوۃ ادا کرتی ہو؟ عرض کی نہیں۔ فرمایا: کیا تجھے یہ پسند ہے کہ اللہ عز و جل قیامت میں ان کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے ، ان بی بی نے کڑے اتار کر ڈال دیئے اور عرض کی یہ اللہ اور کے رسول کے لئے ہیں جل جلالہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔
مزید پڑھیں:اولاد پر خرچ کرنا، خیرات کرنا اور مستقبل کے لیے رکھنا کیسا؟
جسے امام ابوالحسن ابن القطان و امام ابن الملقن وعلامہ سید میرک نے کہا ” اسنادہ صحیح “ (اس کی سند صحیح ہے )۔ امام عبدالعظیم منذری نے مختصر میں فرمایا اسنادہ لا مقال فیہ “ (اس کی سند میں کچھ گفتگو نہیں) ۔ محقق على الاطلاق نے فرمایا “الاشبهة في صحته ” ( اس کی صحت میں کچھ شبہ نہیں ) ۔ جبکہ امام ترمذی نے جامع میں روایت کر کے فرمایا “لا يصح في هذا الباب عن النبي صلى الله تعالى عليه و سلم شیء ” ( اس باب میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کچھ صحیح مروی نہ ہوا ) امام منذری نے فرمایا لعل الترمذي قصد الطريقين الذين ذكرهما والافطريق أبي داؤد لا مقال فيه (شاید تر مذی ان دو طریق کو کہتے ہیں جو انہوں نے ذکر کیے ورنہ سند ابی داؤہ میں اصلا جائے گفتگو نہیں)۔
اور سنے حدیث رد شمس کہ حضور پر نور سید الانوار، ما عرب، مہرعجم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لئے ڈوبا ہوا آفتاب پلٹ آیا۔ مغرب ہو کر پھر عصر کا وقت ہو گیا یہاں تک کہ امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالی وجہ الکریم نے نماز عصر ادا کی جسے طحاوی و امام قاضی عیاض و امام مغلطا ی و امام قطب خیضری و امام حافظ الشان عسقلانی و امام خاتم الحفاظ سیوطی و غیر ہم اجلہ کرام نے حسن و صحیح كہا كما هو مفصل في الشفاء وشروحه و المواهب و شرحها ( جیسے شفاء اس کی شروح اور مواہب اور اس کی شرح زرقانی میں تفصیلا مذکور ہے )۔
مزید پڑھیں:فضائل سے مراد اعمال حسنہ ہیں یا صرف ثواب اعمال؟
علامہ شامی اپنی سیرت پھر علامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں ” اما قول الامام احمد و جماعة من الحفاظ بوضعه فالظاهر انه وقع لهم من طريق بعض الكذابين والافطرقہ السابقة يتعذر معها الحكم عليه بالضعف فصلا عن الوضع امام احمد اور حفاظ کی ایک جماعت کا اسے موضوع قرار دینا اس وجہ سے ہے کہ ان کو یہ روایت ایسے لوگوں کے ذریعے پہنچی ہوگی جو کذاب تھے ورنہ اس کی سابقہ تمام اسانید پر ضعف کا حکم لگا نا متعذرہے، چہ جائیکہ اسے موضوع کہا جائے۔
عام تر سنیے امام ابو الحسن سبکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ومما یجب ان یتنبہ لہ ان حکم المحدثین بالانکار والاستعزاب قد یکون بحسب تلک الطریق فلا یلزم من ذللک ردمتن الحدیث بخلاف اطلاق الفقیہ ان الحدیث موضوع فانہ حکم علی المتن من حیث الجملہ “اس سے آگارہنا واجب ہے کہ محدثین کا کسی حدیث کو منکر یا غریب کہنا کبھی خاص ایک سند کے لحاظ سے ہوتا ہے تو اس سے اصل حدیث کا ردلازم نہیں آتا بخلاف فقیہ کے موضوع کہنے کہ وہ بالا جمال اُس متن پر حکم ہے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 601

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 03, Fatwa 102
مزید پڑھیں:کیا حدیث ضعیف سے سنت ثابت ہو سکتی ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top