:سوال
کسی حدیث کی کئی سندیں ہوں ، ان میں سے کسی ایک سند کے بارے میں کسی محدث کا قول وضع یا ضعف کا تو اس روایت کا کیا حکم ہے؟
:جواب
بار ہا موضوع یا ضعیف کہنا صرف ایک سند خاص کے اعتبار سے ہوتا ہے نہ کہ اصل حدیث کے جو حدیث فی نفسه ان(مذکوره ) پندرہ دلائل سے منز ہ ہو محنت اگر اس پر حکم وضع کرے تو اس سے نفس حدیث پر حکم لازم نہیں بلکہ صرف اس سند پر جو اُس وقت اس کے پیش نظر ہے، بلکہ بار ہا اسانید عد یدہ حاضرہ ( بہت ساری موجودہ سندوں ) سے فقط ایک سند پر حکم مراد ہوتا ہے یعنی حدیث اگر چہ فی نفسہ ثابت ہے، مگر اس سند سے موضوع و باطل اور نہ صرف موضوع بلکہ انصافاً ضعیف کہنے میں بھی یہ حاصل ۔
ائمہ حدیث نے ان مطالب کی تصر یحیں فرما ئیں تو کسی عالم کاحکم وضع یا ضعف دیکھ کر خواہ نخواہی یہ سمجھ لینا کہ اصل حدیث باطل یا ضعیف ہے، نا واقفوں کی فہم سخیف ہے،
میزان الاعتدال امام ذہبی میں ہے
” ابراهيم بن موسى المروزى عن مالك عن نافع عن ابن عمر رضی الله تعالى عنهما حديث طلب العالم فريضة “قال احمد بن حنبل “هذا كتب يعنى بهذا الاسناد والا فالمتن له طرق ضعيفة
ابراهيم بن موسی المروزی مالک سے، یہ نافع سے یہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی ہے کہ طلب العلم فریضہ اس حدیث کو امام احمد رضی اللہ تعالی نے جو کذب فر ما یا اس سے مراد یہ ہے کہ خاص اس سند سے کذب ہے، ورنہ اصل حدیث تو کئی سندوں ضعاف سے وارد ہے
اور سنئے حدیث صلاة بسواك خير من سبعين صلاة بغير سواك ” ( مسواک کے ساتھ نماز بے مسواک کی سترہ ے نمازوں سے بہتر )
ابو نعیم نے کتاب السواک میں دو جید صحیح سندوں سے روایت کی امام ضیاء نے اسے مختارہ اور حاکم نے صحیح مستدرک میں داخل کیا اور کہا شرط مسلم پر صحیح ہے۔(اس کے باوجود ) ابن عبدالبر نے تمہید میں امام ابن معین سے اس کا بطلان نقل کیا، علامہ شمس الدین سخاوی مقاصد مت میں اسے ذکر کر کے فرماتے ہیں
قول عبد البر في التمهيد عن البن معين دانه حديث باطل، هو بالنسبة لما وقع له من طرفه
یعنی امام ابن معین کا یہ فرمانا کہ یہ حدیث باطل ہے اس سند کینسبت ہے جو انہیں پہنچی۔
ور نہ حدیث تو باطل کیا معنی ضعیف بھی نہیں، اقل درجہ حسن ثابت ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 468