:سوال
غیر مقلد کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت پر کیا دلیل ہے؟
:جواب
( امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے اس پر پانچ دلیلیں ارشاد فرمائیں )
دلیل نمبر (1)
پہلی دلیل کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ بدعتی و بد مذہب ہیں اور اہل بدعت کی نسبت تمام کتب فقہ میں موجود ہے کہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں ، طائفہ مذکورہ (مذکورہ گروہ ) بدعتی بلکہ بدترین اہل بدعت سے ہے ( پھر ان کے بدعتی ہونے پر متعدد دلائل دینے کے بعد فرماتے ہیں) اہل بدعت کی نسبت تمام کتب فقہ و متون و شروح وفراہی میں صریح تصر یحسیں موجود کہ ان کے پیچھے نماز مکروہ اور تحقیق یہ ہے کہ یہ کراہت تحریمی ہے یعنی حرام کی مقارب ( قریب ) ، گناہ کی جالب (اس کے کرنے سے گناہ ہوتا ہے ) ، اعادہ نماز کی موجب ( سبب ہے )۔
اس کے بعد متعدد احادیث و اقوال ائمہ سے ثابت کیا کہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا گناہ ہے، چنانچہ فرماتے ہیں ) علماء فرماتےہیں نمازاعظم شعائر دین ہے اور مبتدع کی توہین شرعاً واجب اور امامت میں اُس کی تو قیر و عظیم مقصود شرع سے بالکل مجانب ( دور )۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں ” من وقر صاحب بدعة فقد اعان على هدم الاسلام ” جو كسى بدعتی کی تو قیر کرے اس نے دین اسلام کے ڈھانے پر مدد کی۔
(شعب الایمان ، ج 7،ص 61، دار الكتب العلمیۃ، بيرات )
دلیل نمبر (۲)
دوسری دلیل کا حاصل یہ ہے کہ غیر مقلد بد مذہب ہونے کے ساتھ ساتھ فاسق معلن ( علانیہ گناہ کرنے والے ) بھی ہیں اور کتب فقہ میں موجود کہ فاسق معلن کے پیچھے بھی نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں ، غیر مقلد بد مذہبی کے علاوہ فاسق معلن بیباک مجاہر بھی ہیں اور فاسق متہتک کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ( پھر فاسق کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہونے کے دلائل دینے کے بعد غیر مقلدین کے فسق بیان فرمائے)
مزید پڑھیں:محراب اگر صف کے درمیان میں نہ ہو تو کیا حکم ہوگا؟
: فسق اول
سب و دشنام اہل اسلام ( پہلا فسق اہل اسلام کو گالیاں دینا )ہے، حضور پر نو رسید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حدیث مشہور میں فرماتے ہیں ”سباب المسلم فسوق” مسلمان کو سب وشتم کر نا فسق ہے۔
(صحیح البخاری ، ج 2 ،ص 893، قدیمی کتب خانہ کراچی)
:فسق دوم
طعن علماء ( علماء پر طعن کرنا ) ، حضور سید عالم صلی اللہ تعا لی علیہ و سلم فرماتے ہیں ” ثلثة لا يستخف بحقهم الامنافق ذو الشيبة في الاسلام ذو العلم وامام مقسط” تین شخص ہیں جن کی تحقیر نہ کرے گا مگر منافق ایک وہ جسے اسلام میں بڑھا پا آیا ، دوسراذی علم، تیسرا امام عادل۔
(المعجم الكبير، ج 8 ،ص 238، المكتبہ الفيصليہ ، بیروت)
:فسق سوم
عداوت اولیائے کرام قدست اسرارہم جس کی تفصیل کو دفتر درکار، جس نے ان کے اصول و فروع پر نظر کی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ ان کی بنائے مذہب محبو با ن خدا کے نہ ماننے اور ان کی محبت وتعظیم کو جہاں تک بن پڑے گھٹانے مٹانے پر ہے یہاں تک کہ ان کے بانی مذہب نے تصریح کردی کہ اللہ کو مانے اور اس کے سوا کسی کو نہ مانے۔اور چوڑھے چھار اور ناکارے لوگ تو نوک زبان پر ہے، خو دحضور سید المحبو بینﷺ کی نسبت صاف کہہ دیا کہ وہ بھی مرکر مٹی میں مل گئے ۔ سبحان الله حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم ارشاد فرما ئیں” ان الله حرم على الارض ان تاكل اجساد الانبیاء ” بیشک اللہ تعالی نے زمین پر پیغمبروں کا جسم کھانا حرام کیا ہے۔
( سنن النسائی، ج 1 ،ص 162، مطبوعہ مکتبہ سلفیہ ،لاہور )
مزید پڑھیں:مسجد میں دوسری جماعت کروانے کا کیا حکم ہے؟
اور رب العالمین جل مجدہ ان کے غلاموں یعنی شہدائے کرام کی نسبت ارشاد فرمائے (وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ، بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ) جو خدا کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں خبر نہیں۔ اور فرماتے (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ) خبردار شہیدوں کو مردہ نہ جانیو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں شاد شاد ہیں۔ اور ایک سفیہ ( بیوقوف ) مغرور محبوبان خدا سے نفور خود حضور پر نو را کرم المحبو بین صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین کی نسبت وہ ناپاک الفاظ کہے اور وہ بھی یوں کہ معاذ اللہ حضور ہی کی حدیث کا یہ مطلب ٹھہرائے یعنی میں بھی ایک مرکر منی میں ملنے والا ہوں
قیامت میں ان شاء اللہ مرکر مٹی میں ملنے کا مزا الگ کھلے گا اور یہ جدا پو چھا جائے گا کہ حدیث کے کون سے لفظ میں اس نا پاک معنی کی بوتھی جو تو نے یعنی کہہ کر محبوب اعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر افترا کیا حضور پر افترا خدا پر افترا ہے اور خدا پر افترا جہنم کی راہ کا پرلا (آخری) سرا (کناره)، (إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ، مَتَاعٍ قَلِيْلٍ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيم )بيشك وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے۔ یہ دنیا متاع قلیل ہے اور ان کے لئے (آخرت میں ) المناک عذاب ہے۔ بھلا جب خود حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ یہ برتاؤ ہیں تو اولیائے کرام کا کیا ذکر ہے اور حضرت حق عز جلالہ حدیث قدسی میں ) فرماتا ہے” من عادى لي وليا فقد أذنته بالحرب”۔
(صحیح البخاری، ج 2، ص 963 ،قدیمی کتب خانہ، کراچی)
اور حضور پرنورسید المحبو بین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ” من عادی اولیاء الله فقد بارز الله بالمحاربة ” جس نے اولیاء اللہ سے عداوت کی وہ سر میدان خدا کے ساتھ لڑائی کو نکل آیا۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوبوں کی سچی محبت پر دنیا سے اٹھائے ، امین ۔
( سنن ابن ماجہ ،ص 296 ،آفتاب عالم پر لیس، لاور )
مزید پڑھیں:کراہت تحریمی پر مشتمل جماعت میں شریک ہونا چاہیے یا نہیں؟
:فسق چہارم
ہم اوپر بیان کر آئے کہ ان کا خلاصہ مذہب یہ ہے کہ گنتی کے ڈھائی آدمی ناجی (نجات پانے والے ) باقی تمام مسلمین شرک میں پڑ کر ہلاک ہو گئے اور حضور سید عالم ﷺفرماتے ہیں ”اذا سمعت الرجل يقول هلك الناس فهو اهلكهم ” جب تو کسی کو یوں کے کہتے سنے کہ لوگ ہلاک ہو گئے تو وہ ان سب سے زیادہ بلاک ہونے والا ہے۔
(الادب المفرد،ص 198 ،المکتبۃ الاثر یہ، سانگلہ ہل )
حدیث سے ثابت ہوا کہ حقیقتہ یہی لوگ جو ناحق مسلمانوں کو چنیں و چناں کہتے ہیں خود ہلاک عظیم کے مستحق ہیں اور اللہ جل جلالہ فرماتا ہے” فَهَلْ يُهْلَكَ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَسِقُوْن ” کون ہلاک ہوا سوا فاسق لوگوں کے۔ پھر ان کے اشد الفاسقین سے ہونے میں کیا شبہ ہے و العیاذ باللہ سبخنه و تعالی ۔ پھر ستم بر ستم یہ کہ وہ ان محرمات کا صرف ارتکاب ہی نہیں کرتے انہیں حلال و مباحات بلکہ افضل حسنات بلکہ اہم واجبات سمجھتے ہیں ہیہات اگر تاویل کا قدم درمیان نہ ہوتا تو کیا کچھ ان کے بارے میں کہنا نہ تھا۔
دلیل نمبر (۳)
اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ ان کے طہارت وغیرہ کے مسائل احناف وغیرہ سے اتنے مختلف ہیں کہ اگر ان مسائل پر عمل کیا جائے تو احناف کی نماز ہی نہیں ہوتی ، اور علماء تصریح فرماتے ہیں کہ دوسرے مذہب والے شافعی وغیرہ ( جواہل حق ہیں ) کے پیچھے نماز صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے جبکہ وہ احناف کے مسائل کی رعایت کرے، اور ان غیر مقلدین کا تعصب بالکل واضح ہے یہ تو جان بوجھ کر خلاف ہی کریں گے۔
:امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے ان کے چند مسائل بیان فرمائے ہیں
مزید پڑھیں:جماعت میں دوسرے مقتدی کے شریک ہونے کا طریقہ
(1)مسئلہ نمبر
پانی کتنا ہی کم ہو نجاست پڑنے سے نا پاک نہیں ہوتا جب تک رنگ یا بو یا مزہ نہ بدلے۔ امام اہلسنت علیہ الرحم فرماتے ہیں: اس مسئلے کا مطلب یہ ہوا کہ کنواں تو بڑی چیز ہے اگر پاؤ بھر پانی میں دو تین ماشے اپنا یا کتے کا پیشاب ڈال دیجئے پاک رہے گا مزے سے وضو کیجئے ، نماز پڑھئے کچھ مضائقہ نہیں۔
(2)مسئلہ نمبر
شراب و مردار و خون کی حرمت ان کی نجاست پر دلیل نہیں جو انہیں نا پاک بتائے دلیل پیش کرے۔
(3)مسئلہ نمبر
منی پاک ہے ، خنزیر کے نجس ہونے میں اختلاف ہے، بہتا خون پاک ہے۔
(4)مسئلہ نمبر
پگڑی پر مسح کرنا کافی ہے یعنی وضو میں سر کا مسح نہ کیجئے پگڑی پر ہاتھ پھیر لیجئے وضو ہو گیا اگر چہ قرآن عظیم فرمایا کرے (وَامْسَحُوا بِرُوسِكُم) ترجمہ: اپنے سروں کا مسح کرو۔
(5) مسئلہ نمبر
جو اپنی بیوی سے جماع کرے اور انزال نہ ہو تو اس کی نماز بغیر غسل کے درست ہے۔
مزید پڑھیں:سورہ اخلاص پڑھنے کی کیا فضیلت ہے؟
(6)مسئلہ نمبر
( وضو میں بجائے پاؤں دھونے کے مسح فرض ہے۔ )
غیر مقلدین کے ان مسائل کو بیان کرنے کے بعد امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے کتب فقہ کی وہ عبارات نقل کی ہیں جن میں شوافع وغیرہ کے پیچھے نماز پڑھنے کے احکام علماء نے نقل کئے پھر فرماتے ہیں سبحان اللہ جبکہ بے احتیاط شافعی کے پیچھے نماز جمہور ائمہ کے نزد یک ناجائز ، تو ان مبتدعین تہورین کو اہل حق و ہدایت سے کیا نسبت ان کے پیچھے بدرجہ اولی نا جائز وممنوع تر ہونا چاہئے۔
دلیل نمبر (۴)
حضرت امام الائمہ سراج الامہ امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں” جو متکلم ضروریات عقائد کی بحث میں ( کہ جن میں لغزش موجب کفر ہوتی ہے ) یہ چاہے کہ کسی طرح اس کا مخالف خطا کر جائے وہ کافر ہے کہ اس نے اس کا کافر ہونا چاہا اورمسلمان کو مبتلائے کفر چاہنا رضا بالکفر ( اس کے کفر پر راضی ہونا) ہے اور رضا بالکفر آپ ہی کفر ( ہے ) ، علماء فرماتے ہیں ایسے متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ۔۔ جب اس منظم کے پیچھے نماز نا جائز ہوئی جس کے انداز سے کفر غیر پر رضا نکلتی ہے تو یہ صریح متعصبین جن کا اصل مقصود تکفیر مسلمین ( مسلمانوں کو کافر قرار دینا ) ، دن رات اس میں ساعی ( کوشش کرتے رہیں اور جب تقریر و تحریر اس کی تصریحیں کر چکے اور مکابر ہر طرح اپنی ہی بات بالا چاہتا ہے تو قطعاً ان کی خواہش یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو مسلمان کا فر ٹھہریں اور شک نہیں کہ اپنے زعم باطل میں اس کی طرف کچھ راہ پائیں تو خوش ہو جائیں اور جب بحمد اللہ مسلمانوں کا کفرسے محفوظ ہونا ثابت ہو غم و غصہ کھائیں تو ان کا حکم کس درجہ اشد ہوگا اور ان کی اقتدا کیونکر روا۔
دلیل نمبر (۵)
یہاں تک تو ان کے بدعت وفسق وغیر ہما کی بنا پر کلام تھامگر ایک امر اور اشد و اعظم ان کے طائفہ تالفہ سے صادر ہوتا ہے جس کی بنا پر ان کے نفس اسلام ( مسلمان ہونے ہی ) میں ہزاروں دقتیں ہیں یہاں تک کہ احادیث صریحہ صحیحہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وال سلم واقوال جما ہیر فقہائے کرام رحمہ اللہ تعالی علہیم سے ان کا صریح کافر ہونا اور نماز کا ان کے پیچھے محض باطل جانا نکلتا ہے وہ کیا یعنی ان کا تقلید کو شرک اور حنفیہ مالکیہ شافعیہ حنبلیہ سب مقلد ان ائمہ کو مشرکین کو بتانا کہ یہ صراحۃ مسلمانوں کو کافر کہنا ہے اور پھر ایک کو نہ دو کو لاکھوں کروڑوں اور پھر آج کل کے ہی نہیں گیارہ سو برس کے عامہ مومنین کو جن میں بڑے بڑے محبوبان حضرت عزت و اراکین امت و اساطین ملت و حمد ت و حملئہ شریعت و کملہ طریقت تھے رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین۔
شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رسالہ انصاف میں لکھتے ہیں ”بعد الماتين ظهر بينهم التمذهب للمحتهدين باعيانهم وقل من كان لا يعتمد على مذهب مجتهد بعينه ” دو صدی کے بعد مسلمانوں میں تقلید شخصی نے ظہور کیا، کوئی کم ہی رہا جو ایک امام معین کے مذہب پر اعتماد نہ کرتا ہو۔ اس پر متعدد دلائل دینے کے بعد فرماتے ہیں، با لجملہ اصلا محل شبہ نہیں ان صاحبوں نے تقلید کو شرک وکفر اور مقلدین کو کافر و مشرک کہہ کر لاکھوں کروڑوں علماء واولیاء و صلحاء واصفیا بلکہ امت مرحومہ محمد ید علی مولیہاء علیہ الصلوۃوالتحیۃ کے دس حصوں سے نو کو علی الاعلان کا فرو مشرک ٹھہرایا۔۔ اور جو شخص ایک مسلمان کو بھی کافر کہے ظواہر احادیث صحیحہ کی بنا پروہ خود کافر ہے اور طرفہ یہ کہ اس فرقہ ظاہر یہ کو ظاہر احادیث ہی پر عمل کا بڑا دعوی ہے۔ حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” ایما امرء قال لاخيه كافر فقدباء بها احدهما ان كان كما قال والارجعت عليه” یعنی جو شخص کلمہ گو کو کافر کہے تو اُن دونوں میں ایک پر یہ بلاضرور پڑے گی اگر جسے کہا وہ حقیقتہ کا فر تھا جب تو خیر ورنہ یہ کلمہ اس کہنے والے پر پلٹے گا۔
(صحیح مسلم ، ج 1 ،ص 57 ،نورمحمد اصح المطابع ، کراچی)
مزید پڑھیں:عذر شرعی کی وجہ سے جماعت سے نماز نہ پڑھنا کیسا؟
صحیح بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی نہ سے مروی حضور سید عالم صلی للہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں” اذا قال الرجل لاخيه يا كافر فقد باء به احدهما” جب کوئی شخص اپنے بھائی مسلمان کو ”یا کافر ”کہے تو اُن دونوں میں ایک کا رجوع اس طرف بیشک ہو۔
(صحیح البخاری ، ج 2 ،ص 901، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
مذکورہ بات کہ مسلمان کو کافر کہنے سے کفر کہنے والے کی طرف لوٹتا ہے پر احادیث اور اقوال فقہاء سے بہت سے دلائل دینے کے بعد فرماتے ہیں ، اہلسنت کو چاہئے ان سے بہت پر ہیز رکھیں ، ان کے معاملات میں شریک نہ ہوں، اپنے معاملات میں انہیں شریک نہ کریں، ہم او پر احادیث نقل کر آئے کہ اہل بدعت بلکہ فساق کی صحبت ومخالفت سے ممانعت آئی ہے اور بیشک بد مذہب آگ ہیں اور صحبت مؤثر ( اثر کرنے والی ہے ) اور طبیعتیں سراقہ اور قلوب منقلب ( دل بدل جانے والے ہیں)۔
حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” انما مثل الجليس الصالح وجليس السوء كحامل المسك ونافخ الكير فحامل المسك اما ان يحذيك واما ان تبتاء منه واما ان تجد ھنه ريحا طيبة ونافخ الكير اما ان يحرق ثيابك واما ان تجد منه ريحا خبيثة ” ترجمه: نیک ہم نشین اور بد جلیسں کی مثال یونہی ہے جیسے ایک کے پاس مشک ہے اور دوسرا دھونکنی دھونکتا ہے مشک والا یا تو تجھے مشک ہبہ کرے گا یا تو اس سے خریدے گا ، اور کچھ نہ ہو تو خوشبو تو آئے گی ، اور وہ دوسرا یا تیرے کپڑے جلا دے گایا تو اس سے بد بو پائے گا۔
(صحیح البخاری، ج 2 ،ص 830 ، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
خصوصاً ان کے پیچھے نماز سے تو احتر از واجب، حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” ان سركم ان تقبل صلاتكم فليؤمكم خياركم ” اگر تمہیں پسند آتا ہو کہ تمہاری نماز قبول ہو تو چاہئے کہ تمہارے نیک تمہاری امامت کریں ۔
(کنز العمال،ج 7 ،ص 596 ،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت)
حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” ان سركم ان تقبل صلاتكم فليؤمكم خياركم فأنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم “اگر تمہیں اپنی نمازوں کا قبول ہونا خوش آتا ہو تو چاہئے جو تم میں اچھے ہوں وہ تمہارے المستدرک علی، حسین ، ج 3 ص 22، دار الفکر، بیرت ) امام ہوں کہ وہ تمہارے سفیر ہیں تم میں اور تمہارے رب میں ۔
(المستدرک علی الصحیحین ، ج 3 ،ص 222، دار الفکر، بیروت )
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 671