:سوال
بعض لوگ غائبانہ نماز جنازہ کو جائز سمجھتے ہیں اور بطور دلیل کچھ روایات پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً واقعہ نجاشی وغیرہ۔
: جواب
حضور پرنورسید یوم النشور بالمومنین رؤف رحیم علیه وعلى الہ افضل الصلوۃ والتسلیم کو نماز جنازہ مسلمین کا کمال اہتمام تھا۔ اگر کسی وقت رات کی اندھیری یا دو پہر کی گرمی یا حضور کے آرام فرما ہونے کے سبب صحابہ نے حضور کو اطلاع نہ دی اور دفن کر دیا تو ارشاد فرماتے ایسا نہ کرو مجھے اپنے جنازوں کے لئے بلا لیا کرو۔“
(مسند احمد بن حنبل ، ج 3 ص 444، دار الفکر، بیروت)
اور فرماتے ایسانہ کرو جب تک میں تم میں تشریف فرما ہوں ہر گز کوئی میت تم میں نہ مرے جس کی اطلاع مجھے نہ دو کہ اس پر میری نماز موجب رحمت ہے۔
(مسند احمد بن حنبل، ج 4، ص 388، دار الفکر، بیروت)
اس پر میری نماز موجب رحمت ہے۔“ مزید فرماتے ہیں بیشک یہ قبریں اپنے ساکنوں پر تاریکی سے بھری ہیں اور بیشک میں اپنی نماز سے انھیں روشن فرما دیتا ہوں ۔
(صحیح مسلم ، ج 1 ، ص 310 نور محمد اصح المطابع، کراچی)
مزید پڑھیں:کیا ام المومنین خدیجۃ الکبری کے جنازہ کی نماز نہیں ہوئی تھی؟
با ایں ہمہ حالانکہ زمانہ اقدس میں صد ہا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے دوسرے مواضع میں وفات پائی، کبھی کسی حدیث صریح سے ثابت نہیں کہ حضور نے غائبانہ ان کے جنازہ کی نماز پڑھی، کیا و ہ محتاج رحمت والا نہ تھے، کیا معاذ اللہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کو ان پر یہ رحمت و شفقت نہ تھی ، کیا ان کی قبور اپنی نماز پاک سے پر نور نہ کرنا چاہتے تھے، کیا جو مدینہ طیبہ میں مرتے انھیں کی قبور محتاج نور ہوتیں اور جگہ اس کی حاجت نہ تھی ، یہ سب باتیں بداہتہ باطل ہیں تو حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کاعام طور پران کی نماز جنازہ نہ پڑھنا ہی دلیل روشن واضح ہے کہ جنازہ غائب پر نماز نا ممکن تھی ورنہ ضرور پڑھتے کہ مقتضی بکمال و فور موجود اور مانع مفقود (یعنی جو بات جنازہ پڑھنے کا تقاضا کر رہی ہے وہ پورے کمال کے ساتھ موجود ہے
اور کوئی مانع بھی موجود نہیں ) لا جرم نہ پڑھنا قصد ا باز رہنا تھا اور جس امر سے مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بے عذر مانع بالقصد احتر از فرمائیں وہ ضرور امر شرعی و مشروع نہیں ہو سکتا۔ دوسرے شہر کی میت پر صلوۃ کا ذکر صرف تین واقعوں میں روایت کیا جاتا ہے۔ واقعہ نجاشی، واقعہ معو یہ لیسی اور واقعہ امرائے موتہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔ ان میں اول دوم بلکہ سوم کا بھی جنازہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ سلم کے سامنے حاضر تھا تو نماز غائب پر نہ ہوئی بلکہ حاضر پر، اور دوم اور سوم کی سند صحیح نہیں، اور سوم صلوۃ بمعنی نماز میں صریح نہیں۔
مزید پڑھیں:غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا کیسا ہے؟
اگر فرض ہی کر لیجئے کہ ان تین واقعوں میں نماز پڑھی تو با وصف حضور کے اس اہتمام عظیم و موفور اور تمام اموات کے اس حاجت شدیدہ رحمت ونور قبور کے صدہا پر کیوں نہ پڑھی، وہ بھی محتاج حضور و حاجت مند رحمت ونور، اور حضور ان پر بھی رؤف و رحیم تھے۔ نماز سب پر فرض عین نہ ہونا اس اہتمام عظیم کا جواب نہ ہوگا، نہ تمام اموات کی اس حاجت شدیدہ کا علاج، حالانکہ حریص علیکم ان کی شان ہے، دو ایک کی دستگیری فرمانا صد ہا کو چھوڑ نا کب ان کے کرم کے شایاں ہے۔ ان حالات واشارات کے ملاحظہ سے عام طور پر ترک اور صرف دو ایک بار وقوع خود ہی بتا دے گا کہ وہاں خصوصیت خاصہ تھی جس کا حکم عام نہیں ہو سکتا۔ حکم عام وہی عدم جواز ( جائز نہ ہونا ) ہے جس کی بنا پر عام احتراز (عام طور پر بچنا) ہے۔
اب واقعہ بئر معونہ ہی دیکھئے، مدینہ طیبہ کے ستر جگر پاروں محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے خاص پیاروں ، اجلہ علمائے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو کفار نے دغا سے شہید کر دیا، مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ان کاسخت و شدید غم والم ہوا، ایک مہینہ کامل خاص نماز کے اندر کفار نا ہنجار پر لعنت فرماتے رہے، مگر ہرگز منقول نہیں کہ ان پیارے محبوبوں پر نماز پڑھی ہو آخر اجلہ صحابہ کے شہید ہونے پر آپ صلی الہ تعالی علیہ وسلم کا ان کی نماز جنازہ کوترک فرمانا بغیر کسی وجہ کے نہیں ہو سکتا۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 344