:سوال
امام نے ایک مقتدی کے ساتھ نماز شروع کی ، ایک رکعت کے بعد دوسرا اور ایک شخص آیا تو اس صورت میں امام آگے بڑھے گا یاوہ شخص مقتدی کو پیچھے کی طرف کھینچے گا، اگر امام آگے بڑھے تو اشارہ سے پہلے یا بعد اشارہ، اگر بعد اشارہ کے تو آنے والا قبل تکبیر تحریمہ کے اشارہ کرے گا یا بعد ، اگر تکبیر تحریمہ سے پہلے اشارہ کرے گا تو امام کو کرے گا یا مقتدی کو، اور قبل تحریمہ کے وہ شخص مقتدی کو اپنی جانب کھینچے گا تو اس صورت میں نماز فاسد ہوگی یا نہیں ؟
:جواب
جب امام کے ساتھ ایک مقتدی ہو اور دوسرا آئے تو افضل یہ ہے کہ مقتدی پیچھے ہٹے، ہاں اگر مقتدی مسئلہ نہ جانتا ہو یا پیچھے ہٹنے کو جگہ نہیں تو ایسی صورت میں امام کو بڑھنا چاہئے کہ ایک کا بڑھنا دو کے بننے سے آسان ہے۔ پھر اگر ( مقتدی ) مسئلہ جانتا ہو تو جب کوئی دوسر املا چاہتا ہے تو ہے تو خود ہی پیچھے ہٹنا چاہئے خواہ امام خود ہی آگے بڑھ جائے ور نہ اس آنے والے شخص کو چاہئے کہ مقتدی کو اور وہ مسئلہ نہ جانتا ہو تو امام کو اشارہ کرے، انہیں مناسب ہے کہ معا اشارہ کے ساتھ ہی حرکت نہ کریں کہ امتثال امر غیر ( غیر کے حکم کی پیروی ) کا شبہ نہ ہو بلکہ ایک تامل خفیف ( تھوڑی دیر ٹھہر نے ) کے بعد اپنی رائے سے اتباع حکم شرع وادائے سنت کے لئے ، نہ اس کا اشارہ ماننے کی نیت سے حرکت کریں۔
اس صورت میں برابر ہے کہ یہ آنے والا مقتدی نیت باندھ کر اشارہ کرے خواہ بلانیت کے بہر حال وہ اطاعت حکم شرع کریں گے، نہ اس کے حکم کی اطاعت اور جو جاہل اس کا حکم ماننے کی نیت کرے گا تو اس کا تکبیر تحریمہ کے بعد اشارہ کرنا کیا نفع دے گا کہ امام یا مقتدی کو دوسرے مقتدی کا حکم ماننا کب جائز ہے، لقمہ قرآت میں یا افعال میں لینا کہ امام کو جائز ہے وہ بھی بحکم شرع ہے نہ کہ اطاعت حکم مقتدی جو اس کی نیت کرے گا اس کی نماز خود ہی فاسد ہو جائے گی اور جب وہ امام ہے تو اس کے ساتھ سب کی جائے گی۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 138