:سوال
بہرے کی امامت جائز ہے یا نہیں؟
:جواب
عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں حیث لا مانع ( کیونکہ اس کی امامت سے کوئی چیز مانع نہیں )، ہاں غیر بہرا کہ مرجحات راجیحات امامت ( امامت کے بارے میں ترجیح دینے والی چیزوں) میں بہرے سے کم نہ ہو افضل واولی ہے کہ نماز میں جس طرح حفظ طہارت بدن و ثوب و مصلی و تصحیح جہت قبلہ کے لئے حاستہ بھر کی حاجت ہوتی ہے جس کے سبب بینا کو اندھے بلکہ ضعیف البصر پر ترجیح دی گئی۔ یوں ہی حاسئہ جمع کی بھی ضرورت پڑتی ہے اگر چہ نہ دواماً مگر نادر بھی نہیں کہ انسان سے نسیان نادر نہیں اور وقت سہوا مام اصلاح مقتدیوں کے بتانے سے ہوتی ہے اور وہ سمع پر موقوف، جب اُس کا حس سامعہ موقوف ہے۔
تو ان صورتوں کا وقوع متوقع جن میں اس کے نہ سننے کے سبب نماز فاسد یا مکروہ یا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہو جائے مثلاً قعدہ اخیرہ چھوڑ کر اُٹھا مقتدیوں کا بتانا نہ سناء زائد ( چار پڑھ رہا تھا پانچویں) کا سجدہ کرلیا، فرض باطل ہو گئے یا اولی چھوڑا اور بتانے پر مطلع نہ ہو کر سلام پھیر دیا سجدہ سہو کے لئے بتایا گیا تو سمجھا کہ کوئی کچھ بات کرتا ہے تکلم کر بٹھا، نماز بوجہ ترک واجب واجب الاعادہ رہی یا قرآت میں وہ غلطی کی جس سے معنی میں تغیر اور نماز میں فساد ہو فتح مقتد یین ( مقتدیوں کا لقمہ ) سُن کر صحیح ارادہ کر لیتا تو اصلاح ہو جاتی ۔۔ اس نے نہ سنا اور نماز فاسد کر لی۔ تو امامت کے لئے اصلح واولی وہی ہے جو وجود نقص سے خالی ہو۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 460