: سوال
ایک مسلمان نے نو مسلم عورت سے عقد کیا تھا دو برس کے بعد ۲۹ رمضان ۱۳۳۹ھ کو دنیائے فانی سے ملک عدم کو رخصت ہوئی۔ اس مسلمان کا یہاں کوئی اور نہ تھا اس نے مسلمانوں کو اطلاع دی انہوں نے جواب دیا ہم تمہاری عورت کا جنازہ نہیں اٹھائیں گے نہ قبر سان میں جگہ دیں گے کیونکہ تم نماز نہیں پڑھتے ہو اورمسجد کمیٹی وخلافت کمیٹی وغیرہ میں چندہ بھی نہیں دیتے کبھی ہماری کمیٹیوں میں شرکت نہیں کرتے لہذا تم اور کوئی انتظام کرو، اس شخص نے جواب دیا اگر میرا عذر قابل قبول ہو تو مجھے معانی دیجئے جو مزا میرے لئے آپ لوگ قرار دیں میں اس کو قبول کرتا ہوں اگر میرا قصور ہے تو مجھ کو سزا دیں اور معافی دے کر میت کو اٹھا ئیں
، جو خلافت کمیٹی کے ممبران و سیکریڑی و پریزیڈنٹ ہیں ان لوگوں نے مطلق انکار کر دیا، جب اس نے ہندو سے التجا کی اسکی بے کسی بے بسی دیکھ کر ہنود اس محلہ میں آئے اور مسلمانوں کو سمجھایا بمشکل تمام راضی ہوئے لیکن غسل دینے والی عورت کو روک دیا مجبوراً اس نے اپنے ہاتھ سے غسل دیا اور کفن پہنایا بعد اسکے چار پانچ مسلمان ( آئے اور) انہوں نے کہا ہم تم پر آٹھ روپے جرمانہ کرتے ہیں اگر منظور ہو تو ہم میت اٹھائیں گے ورنہ ہم اپنے اپنے گھر جاتے ہیں وہ چونکہ مصیبت زدہ تھا راضی ہوا، غرض صبح آٹھ بجے کی میت بارہ بجے شب کو اٹھائی گئی اب عرض ہے کہ آیا حدیث شریف میں یہی فرمان ہے اور خدا اور اس کے رسول کا یہی حکم ہے تو مجھے مطلع فرمائیں اور اگر یہ حرکت مطابق شرع نہ ہو تو ان کی کیا سزا ہے شرعا و قانونا ؟
: جواب
ان لوگوں نے سخت ظلم کیا اور شدید جرم کیا اگر سلطنت اسلام ہوتی تو حاکم اسلام ان میں سے ایک ایک کو کوڑے لگا تا قید کرتا اور آخرت میں عذاب جہنم کے مستحق ہیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں (( الصلوة واجبة عليكم على كلى مسلم برا كان او فاجرا وان عمل الكبائر )) یعنی ہر مسلمان کے جنازے کی نماز تم پر فرض ہے نیک ہو یا بد اگر چہ اس نے گناہ کبیرہ کیے ہوں۔
(سنن ابوداؤ در ج 1 م 343، آفتاب عالم پریس، لاہور )
مزید پڑھیں:جنازہ کے چند مسائل
خصوصاً جس مسلمان نے رمضان المبارک میں انتقال کیا تو وہ بحکم حدیث شہید ہے خلافت کمیٹی میں چندہ نہ دینا یا اس میں شریک نہ ہونا کوئی جرم نہیں بلکہ مسجد میں چندہ نہ دینا بھی گناہ نہیں نہ کہ جہاں امر بالعکس ہو، نماز نہ پڑھنا ضر ور کبیرہ شدیدہ ہے مگر اس کا گناہ اس کی بی بی کے سر باندھنا کون سی شریعت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولا تزر وازرة وزر اخرى ) ترجمہ: کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھاتی۔ آٹھ روپے کہ انہوں نے لیے سخت حرام اور ان کے حق میں مثل سوئر کے ہیں ان پر فرض ہے کہ اسے واپس کر دیں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا تاكلوا اموالكم بينكم بالباطل ) ترجمہ: اپنے مال آپس میں ناحق نہ کھاؤ۔ اور اس شخص نے عورت کو نسل دیا یہ اسے جائز نہ تھا شوہر عورت کے بدن کو بعد انتقال ہاتھ نہیں لگا سکتا اسے چاہئے تھا کہ کسی سمجھ والی لڑکی یا لڑکے کو نہلانے کا طریقہ بتاتا جاتا اور اپنے سامنے اسے نہلو تا یا کوئی اور عورت اگر چہ اجرت پر ملتی اس سے غسل دلاتا اور اگر کچھ ممکن نہ ہوتا تو اپنے ہاتھوں پر کپڑے کی تھیلیاں چڑھا کر اس کے چہرے اور کہنیوں تک ہاتھوں کا تیمم کر دیتا۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 167