:سوال
مترجم در مختار ایک جگہ لکھتا ہے کہ ایک مرتبہ بریلی کے علماء سے استفتاء طلب کیا گیا تھا تو وہاں کے علماء نے فتوی دیا کہ ہاتھ اٹھا کے دعا مانگنی بین الخطبتین بدعت سیئہ و غیر مشروع ہے، پس آیا یہ بات صحیح ہے یا غلط؟
:جواب
مسنونیت مصطلحہ کہ تارک مستوجب عتاب الہی یا آثم ومستحق عذاب الہی ہوو العیاذ باللہ یہ نہ کسی کا مذہب نہ دعا کرنے والوں میں کوئی ذی فہم اس کا قائل بلکہ وقت مرجو الا جابۃ ( دعا کی قبولیت کی امید کا وقت ) جان کر دُعا کرتے ہیں اور بیشک وہ ایسا ہی ہے اور دعا مغز عبادت و انحائے ذکر الہی عزوجل سے ہے جس کی تکثیر پر بلا تقیید وتحدید نصوص قرآن عظیم و احادیث متواترہ نبی رؤوف رحیم علیہ وعلی آلہ افضل الصلوة والتسليم ناطق اور ہاتھ اٹھا نا حسب تصریح احاد احادیث و تظافر ارشادات علمائے قدیم وحدیث سنن و آداب دُعا سے ہے خطیب کے لئے اُس کی اجازت و مشروعیت تو با تفاق مذہبین خفی و شافعی ہے
مزید پڑھیں:دو خطبوں کے درمیان دعا کو حرام، بدعت سیئہ اور شرک کہنا کیسا؟
یونہی سامعین کے لئے جبکہ دعادل سے ہو نہ زبان سے اور سامعین کا اُس وقت زبان سے دُعا مانگنا جس طرح ان بلاد میں مروج و معمولی ہے ، مذہب شافعیہ میں تو اُس کی اجازت و مشروعیت ظاہر کہ ائمہ شافعیہ رحمہم اللہ تعالی میں خطبہ ہوتے وقت بھی کلام سامعین نا جائز وحرام نہیں جانتے صرف مکر وہ مانتے ہیں اور کراہت کلام شافعیہ میں جب مطلق بولی جاتی ہے اس سے کراہت تنزیہی مراد ہوتی ہے بخلاف كلمات ائمتنا الحنفيه رحمهم الله تعالى فان غالب محملها بها مطلقة فيها كراهة التحريم بخلاف ہمارے ائمہ احناف ر حمہم اللہ تعالی کی عبارات کے کیونکہ ان میں غالب یہی ہے کہ مطلقاً کراہت مکروہ تحریمی ہے )۔
( شوافع ) سکوت خطیب کے وقت جیسے قبل وبعد خطبہ بین الخطبتین اصلاً کراہت بھی نہیں مانتے۔ یونہی مذہب حنفی میں امام ثانی قاضی ربانی سیدنا امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک بھی مطلقاً جواز ہے، اوقات ثلثہ غیر حال خطبہ یعنی قبل و بعد دعا بین خطبتین میں اگر چہ کلام دنیوی منع فرماتے ہیں مگر کلام دینی مثل ذکر و تسبیح مطلقا جائز رکھتے ہیں، اور پر ظاہر دُعا خاص کلام دینی عبادت الہی ہے۔ صاحب مذہب امام الائمہ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے کہ خروج امام سے فراغ نماز تک کلام سے ممانعت فرمائی، مشائخ مذہب اس سے مراد میں مختلف ہوئے اور تصحیح بھی مختلف آئی، بعض فرماتے ہیں مراد امام صرف دنیوی کلام ہے، اوقات ثلثہ میں دینی کی اجازت عام ہے، نہا یہ وعنایہ میں اس کو اصح کہا، ایسا ہی فخر الاسلام نے مبسوط میں فرمایا، مشائخ کرام نے مطلق مراد لیا، امام زیلعی نے تبیین الحقائق میں اسی کو احوط کہا۔
مزید پڑھیں:جمعہ کے دو خطبوں کے درمیان مقتدی کا دعا مانگنا کیسا ہے؟
بالجملہ خلاصہ کلام یہ کہ دعائے مذکور خطیب کے لئے مطلقا اور سامعین کے لئے دل میں بالاتفاق جائز مذہب امام شافعی و قول امام ابی یوسف پر اُن کے لئے زبان سے بھی قطعا اجازت اور ارشاد امام کی ایک تخریج پر مکروہ دوسری پر جائز، ائمہ فتوی نے دونوں کی تصحیح کی تواحد الصحیحین پر دعائے مذکور امام و مقتدین سب کو دل و زبان ہر طرح سے باتفاق مذ ہبین حنفی و شافعی، مطلقا جائز و مشروع ، اور علماء تصریح فرماتے ہیں کہ جب ترجیح مختلف متکافی ہو تو مکلف کو اختیار ہے کہ ان میں سے جس پر چاہے عمل کرے اصلاً محل اعتراض و انکار نہیں ۔
ولہذا افقير غفر اللہ تعالی باۤنکہ یہاں تصحیح تبیین کو رجح جانتا ہے ہمیشہ سامعین کو بین الخطبتین دعا کرتے دیکھا اور کبھی منع وانکار نہیں کرتا ہے۔ رہی مترجم در مختار کی علمائے بریلی سے وہ نقل معلوم نہیں کہ اس نے اپنے زعم میں علمائے بریلی سے کون لوگ مراد لئے ، اُس کے زمانے میں ان اقطار کے اعلم علماء کہ اپنے عصر ومصر میں حقیقۃ صرف وہی عالم دین کے مصداق تھے یعنی خاتمہ المحققین سید نا الوالد قدس سرہ الماجد ، فقیر برسوں جمعات میں اقتدائے حضرت والا سے مشرف ہُو ا حضرت ممدوح قدس سرہ، جلسہ، بین الخطبتین میں دُعا فرمایا کرتے
اور سامعین کو دعا کرتے دیکھ کر کبھی انکار نہ فرماتے اور مترجم کے زمانے سے پہلے بریلی میں اس امر کا استفتاء ہوا، مولانا احمد حسین مرحوم تلميذ اعلحضرت سید العلما سند العرفا مولنا الجد قدس سرہ الامجد نے جواز مشروعیت پر فتوی دیا اعلی حضرت نور اللہ مرقدہ الشریف و فاضل اجل مولنا سید یعقوب علی صاحب رضوی بریلوی و مولوی سید محمود علی صاحب بریلوی و غیر ہم علمائے کرام نے اُس پر مہریں فرمائیں یہ فتوی مولوی صاحب مرحوم کے مجموعہ فتادی مسمی بمفید المسلمین میں مندرج و مشمول ۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 485