ظہر احتیاطی کا طریقہ کیا ہے اور کہاں اس کے پڑھنے کا حکم ہے؟
:سوال
ظہر احتیاطی کا طریقہ کیا ہے اور کہاں اس کے پڑھنے کا حکم ہے؟
:جواب
وہ شہر و قصبات جن میں شرائط جمعہ کے اجتماع میں اشتباہ واقع ہو یا جمعہ متعدد جگہ ہوتا ہو اور آج کل ہندوستان کے عام بلا دایسے ہی ہیں ایسی جگہ ہمارے علمائے کرام نے حکم دیا ہے کہ بعد جمعہ چار رکعت فرض احتیاطی اس نیت سے ادا کرے کہ پچھلی وہ ظہر جس کا وقت میں نے پایا اور اب تک ادانہ کی یہ چار رکعتیں چاروں سنت بعد یہ جمعہ کے بعد پڑھے اور جس پر ظہر کی قضائے عمری نہ ہو وہ چاروں میں سورت بھی ملائے پھر جمعہ کی دوسنتیں ان رکعتوں کے بعد بہ نیت سنت وقت ادا کرے، جمعہ پڑھتے وقت نیت صحیح وثابت رکھے جمعہ کو صحیح سمجھ کر خاص فرض جمعہ کی نیت کرے اگر یہ نیت فرض ادا نہ کیا تو جمعہ یقینا نہ ہوگا اور اب یہ چار رکعتیں نری احتیاطی نہ رہیں گی بلکہ ظہر پڑھنی فرض ہو جائے گی ، اور جب یوں بیت صحیحہ سے ادا کر چکا تو ان چار رکعتوں میں یہ نیت نہ کرے کہ آج کی ظہر پڑھتا ہوں
مزید پڑھیں:جمعہ کے بعد احتیاطا ظہر کے چار فرض پڑھنا کیسا؟
بلکہ وہی گول نیت رکھے کہ جو پچھلی ظہر میں نے پائی اور ادا نہ کی اسے ادا کرتا ہوں خواہ وہ کسی دن کی ہو اس سے زیادہ خیالات پریشان نہ کرے، یوں پڑھنے میں یہ نفع پائے گا کہ اگر شاید علم الہی میں بوجہ فوت بعض شرائط جمعہ صحیح نہ ہوا ہوگا تو یہ رکعتیں آج ہی کی ظہر ہو جائیں گی کہ اس صورت میں یہی ظہر وہ پچھلی ہے جس کا وقت اُسے ملا اور ابھی ذمہ سے ساقط نہ ہوئی اور اگر جمعہ صحیح واقع ہوا تو آج سے پہلے کی جو ظہر اس کے ذمہ رہی ہوگی ( خواہ یوں کہ سرے سے پڑھی ہی نہ تھی یا کسی وجہ سے فاسد ہوگئی وہ ادا ہو جائے گی اور اگر کوئی ظہر نہ رہی ہوگی تو یہ رکعتیں نفل ہو جائیں گی، اسی لحاظ سے جس پر قضائے عمری ظہر کی نہ ہو یہ چاروں رکعتیں بھری پڑھیں کہ اگر نفل ہوئیں اور سُورت نہ ملائی تو واجب چھوٹ کر نماز مکروہ تحریمی ہوگی ہاں جس پر قضائے عمری ہے اسے پچھلی دو میں سورت ملانے کی حاجت نہیں کہ اس کے ہر طرح فرض ہی ادا ہوں گے، جمعہ نہ ہوا تو آج کے اور ہوا تو آج سے پہلے کے، یہ سب تفصیل واقع کے اعتبار سے ہے نمازی کو نیت میں اس شک وتر در کا حکم نہیں کہ نیت و تر دود با ہم منافی ہیں اگر یونہی مذبذب نیت کی تو وہ مقصود و احتیاط ہرگز حاصل نہ ہو گا
مزید پڑھیں:جمعہ کے بعد احتیاطی ظہر پڑھنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟
لہذا اسی طرح گول نیت سے بے خیال تر در بجالائے اور واقع کا معاملہ علم الہی پر چھوڑ دے۔ پھر ایسی تصحیح نیست نرے جاہلوں کو ذرا دشوار ہے اور ان سے یہ بھی اندیشہ کہ اس کے سبب کہیں یہ نہ جاننے لگیں کہ جمعہ سرے سے خدا کے فرضوں میں ہی نہیں یا سمجھنے لگیں کہ جمعہ کے دن دوہرے فرض ہیں دور کعتیں الگ چارا الگ، اسی لئے علماء نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو ان رکعتوں کا حکم نہ دیا جائے ان کے حق میں یہی بہت ہے کہ بعض روایات پر اُن کی نماز ٹھیک ہو جائے انھیں ایسی احتیاط کی حاجت نہیں ، ہاں خواص یعنی جو لوگ اس طرح کی نیت کر سکتے ہوں اور اُن سے وہ اندیشے نہ ہوں وہ یہ احتیاط بجالائیں تا کہ یقینا فرض خدا ادا ہو جائے اور شبہ واحتمال کی گنجائش نہ رہے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 293

READ MORE  غنی امام جو صدقہ فطر لے اسکے پیچھے نماز کا حکم؟
مزید پڑھیں:جس بستی کے لوگ وہاں کی مسجد میں نہ سماویں وہاں جمعہ جائز ہے
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top