:سوال
اگر فقیر لے کر سید زادے کو دینے سے انکار کر دے تو ؟
:جواب
اگر اس نے نہ مانا تو اس کوئی راہ جبرکی نہیں کہ آخر وہ مالک مستقل ہو چکا اسے اختیار ہے چاہیے دے یا نہ دے۔ لہذا فقیر غفر اللہ تعالی لہ کے نزدیک اس کا بے خلش طریقہ یہ ہے کہ مثلا مال زکوۃ سےبیس(20) روپے سدکی نذر یا مسجد میں صرف کیا چاہتا ہے کسی فقیر عاقل بالغ مصرف زکوہ کوکوئی کپڑا مثلا ٹوپی یا سیرسوا سیر غلہ دکھائے کہ یہ ہم تمھیں دیتے ہیں مگر مفت نہ دیں گئے بیس روپے کو بیچیں گے، یہ روپے تمھیں ہم اپنے پاس سے دیں گے کہ ہمارے مطالبہ میں واپس کر دو ، وہ خواہ مخواہ راضی ہو جائے گا، جانے گا کہ مجھے تو یہ چیز یعنی کپڑا یا غلہ مفت ہی ہاتھ آئے گا، اب بیع شرعی کر کے بیس (20) روپے بنیتِ زکوۃ دے، جب وہ قابض ہو جائے اپنے مطالبہ شمن میں لے لے، اول تو وہ خود ہی دے دے گا کہ سرے سے اسے ان روپوں کے اپنے پاس رہنے کی امید ہی نہ تھی کہ وہ گرہ سے جاتا سمجھے، اسے تو صرف اس کپڑے یا غلہ کی امید تھی وہ حاصل ہے تو انکار نہ کرے گا اور کرے بھی تو یہ جبرا چھین لے کہ وہ اس قدر میں اس کا مدیون ہے اور دائن جب اپنے دین کی جنس سے مال مدیون پائے تو بالا تفاق ہے اس کی رضا مندی کے لے سکتا ہے، اب یہ روپے لے کر بطور خود نزرسید یا بناء مسجد میں صرف کر دے کہ دونوں مرادیں حاصل ہیں۔
مزید پڑھیں:حق مہر جس کا مطالبہ بعد موت یا طلاق ہو،نصاب زکوۃ سے کم ہوگا یا نہیں؟
اور فقیر غفر الله تعالی لہ نے اُس مصرف زکوۃ کے عاقل بالغ ہونے کی شرط اس لیے لگائی کہ اس کے ساتھ یہ غبن فاحش کی مبایعت (خرید و فروخت) بلا تکلف روا (جائز) ہو اور کپڑے غلے کی تخصیص اس لیے کی کہ اگر کچھ پیسے بعوض روپوں کے بیچنا چاہے گا تو ظاہر مفاد جامع صغیر پر تقابض البدلین شرط ہو گاؤہ یہاں حاصل نہیں اگر چہ روایت اصل پر ایک ہی جانب کا قبضہ کافی اور اکثر علماء اسی طرف ہیں اور یہی قول منقح۔
بہر حال اس حتی الوسع محل خلاف سے بچنا احسن۔
اور زیر زکوۃ ( زکوۃ کی رقم ) پر اُس کا قبضہ کرا کر مطالبے میں لینے کی قید اس لیے کہ کوئی صدقہ بے قبضہ تمام نہیں ہوتا۔
اور یہ تو پہلے بیان میں آچکا کہ اغنیا سے کثیر المال شکر نعمت بجالائیں ، ہزاروں روپے فضول خواہش یا دنیوی آسائش یا ظاہری آرائش میں اُٹھانے والے مصارف خیر میں ان جیلوں کی آڑ نہ لیں ۔
متوسط الحال بھی ایسی ہی ضرورتوں کی غرض سے خالص خدا ہی کے کام صرف کرنے کے لیے ان طریقوں پر اقدام کریں نہ کہ معاذ اللہ ان کے ذریعہ سے ادائے زکوۃ کا نام کر کے رو پید اپنے خرد برد میں لائیں کہ یہ امر مقاصد شرع کے بالکل خلاف اور اس میں ایجاب زکوٰۃ کی حکمتوں کا یکسر ابطال ہے تو گویا اس کا برتا اپنے رب عز و جل کو فریب دینا ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 107 تا 109